پاکستان اور بھارت کے درمیان دوسال قبل ممبئی حملوں کے بعد تعطل میں پڑنے والے امن مذاکرات کے دوبارہ آغاز کو واشنگٹن کے ماہرین ایک مثبت پیش رفت کے طورپر دیکھ رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہناہے کہ علاقائی تحفظ اور دہشت گردی کی روک تھام مزید مؤثر بنانے میں دونوں ممالک کے درمیان سنجیدہ سٹرٹیجک ڈائیلاگ کی ضرورت ہے۔ اور یہ کہ خطے کی دو حریف جوہری قوتوں کو قریب لانے میں امریکہ ایک اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔
2008 میں بھارت کے شہر ممبئی پر دہشت گرد حملوں میں 166 افراد مارے گئے تھے۔
ان حملوں کے بعد بھارت اور پاکستان کے درمیان مذاکرات کا تسلسل ٹوٹ گیا تھا۔جو اس ہفتے دونوں ملکوں کے وزراء دفاع کی ملاقات سے پھر شروع ہواہے۔
امریکی ماہرین اور عہدے داروں نے پاک بھارت مذاکرات کے آغاز کو مثبت قدم قرار دیا ہے۔لیکن سابق امریکی سفیر کارل انڈرفرتھ کا کہنا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کو ترقیاتی منصوبوں، انفارمیشن ٹیکنالوجی ، اور تجارت کے شعبوں میں تعاون بڑھا کر مزید مضبوط بنایا جاسکتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اب تمام موضوعات پر بات کرنے کاوقت ہے۔ کیونکہ ایک شعبے میں پیش رفت کی وجہ سے دوسرے شعبوں میں بھی پیش رفت ہو سکتی ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات میں بہتری کے لیے تمام موضوعات پر بات کرنا بہت ضروری ہوگا۔ ظاہر ہے کہ سرحدی معاملات ،سلامتی سے متعلق امور ، اور دہشت گردی کی روک تھام پر زیادہ توجہ دی جائے گی۔ لیکن اگر آپ کسی دوسرے شعبے میں آگے بڑھتے ہیں، تو اس کا اثر ان شعبوں میں بھی ظاہر ہو سکتاہے اور دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے ۔
پاک بھارت وزراء دفاع کی حالیہ ملاقات کا مقصد سیاچن میں فوجیوں کی تعداد میں کمی لانے پر بات کرنا تھا ۔ ماہرین کا خیا ل ہے کہ علاقائی تحفظ اور دہشت گردی کی روک تھام بھی پاک بھارت مذاکرات کے ایجنڈے پر سر فہرست رہے ہوں گے، کیونکہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں اعتماد سازی پاکستان کو اندرون ملک دہشت گردی کے مسئلے سے نمٹنے میں مدد دے سکتی ہے ۔ انتہا پسندی اور تشدد پر تحقیق کرنے والی ایک تنظیم کے عہدےد ار اسٹیفن ٹینکل کہتے ہیں کہ پاک بھارت مذاکرات پاکستان کو اپنے اندرونی معاملات سلجھانے کا موقع دے سکتے ہیں۔
اسٹیفن ٹینکل کا کہناہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے کچھ اندرونی مسائل پاکستان کو پوری طرح تعاون نہیں کرنے دیں گے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ دونوں مسائل کو حل ایک ساتھ کیا جانا چاہیے۔ میں نہیں سمجھتا کہ پاکستان اپنے تمام اندرونی مسائل کو بھارت کے ساتھ مذاکرات کے بغیر حل کر سکے گا۔ میرا خیال ہے پاکستان کو بھارت کی طرف سے جو خدشات اور تحفظات ہیں، وہ مذاکرات کی مدد سے کم کیے جا سکتے ہیں، اور پاکستان کو اپنی اندرونی صورت حال پر زیادہ توجہ دینے کا موقع مل سکتا ہے۔ جو فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔
لیکن ٹینکل کا کہنا ہےکہ بھارت اور امریکہ کے تجارتی تعلقات اور افغانستان کی تعمیر نو میں بھارت کے کردار کی وجہ سے پاکستان میں موجود سیکیورٹی خدشات دور کرنے میں امریکہ کا کردار بہت اہم ہو گا۔
ٹینکل کہتے ہیں کہ میں سمجھتا ہوں کہ امریکہ کو چاہیے کہ وہ واضح طور پر یہ بتائے کہ وہ ان دو ملکوں کے ساتھ اپنے تعلقات سے دراصل کیا حاصل کرنا چاہتا ہے اوریہ کہ ان تعلقات کا مستقبل کیا ہو سکتا ہے۔ اور جہاں تک امریکہ یہ سمجھتا ہے کہ بھارت کے ساتھ اس کے تعلقات کی وجہ سے پاکستان میں اس کے کردار کے بارے میں غیر یقینی پیدا ہو رہی ہے، تو اس کا اعتراف کرنا بہت ضروری ہے۔اس اعتراف کے ذریعے ہی تعلقات میں مزید شفافیت پیدا کی جا سکتی ہے ۔
اسٹیفن ٹینکل کہتے ہیں امریکہ اور بھارت کی طرف سے پاکستان کے خدشات دور کرنے کےلیے امریکہ کو باربار پاکستان کی یقین دہانی کرانی چاہیے ، کہ وہ پاکستان سے طویل المیعاد شراکت داری اور تعلقات کا خواہشمند ہے، اور یہ تعلقات صرف پاکستان کے لئے ہی نہیں ، بلکہ امریکہ کے لیے بھی اہمیت رکھتے ہیں۔