اسلام آباد —
پاکستانی وزیراعظم نواز شریف بھارت کے نو منتخب وزیراعظم نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے پیر کو دو روزہ دورے پر نئی دہلی جائیں گے۔
دو روزہ قیام کے دوران بھارتی صدر سے ملاقات کے علاوہ نواز شریف اور نریندر مودی کی علیحدہ سے نشست بھی طے ہے، جس میں وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید کے مطابق دونوں رہنما پاکستان اور بھارت کے درمیان مسائل کے حل بات چیت کریں گے۔
’’یہ ایک بہت اچھا موقع ہوتا ہے کہ آپ ہمسائے کے طور پر مبارکباد کا فریضہ پورا کرتے ہیں اور پھر ریاستوں کے مابین مسائل اور ان پر بات کرنے اور ایک دوسرے کو جاننے کا اچھا موقع مل جاتا ہے۔‘‘
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اب دونوں ممالک میں رائے عامہ بہتر تعلقات اور بات چیت کے ذریعے تنازعات کے حل کی حامی ہے۔
’’ہم دونوں کا ایک ماضی ہے، جس مین تلخیاں تو ضرور موجود ہیں لیکن کیا ہم اب ماضی کے اسیر بن کر رہ جائیں؟ ہم ماضی سے جان چھڑائیں اور نئے راستے تلاش کریں جس سے دونوں طرف امن و ترقی ہو اور ان واقعات سے جان چھوٹ جائے جو انہیں بھی تنگ کرتے ہیں اور ہمیں بھی۔‘‘
نواز شریف کا یہ نئی دہلی کا بطور وزیراعظم پہلا دورہ ہو گا اور گزشتہ سال اقتدار سنبھالنے کے بعد سے وہ بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی اپنی خواہش کا اظہار کرتے آئے ہیں۔
2008 میں عسکریت پسندوں کے ممبئی میں حملوں کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان جامع امن مذاکرات معطل ہو گئے تھے جو کہ ابھی تک مکمل طور پر بحال نا ہو سکے۔
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ اس دورے سے مذاکراتی عمل کے بھرپور انداز میں شروع ہونے کی راہ بھی ہموار ہو سکتی ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کی حالیہ انتخابات میں واضح برتری کے بعد رواں ہفتے دونوں ہمسایہ ملکوں کی طرف سے ایک دوسرے کے رہنماؤں کو دوروں کی دعوت کا تبادلہ دیکھنے میں آیا۔
نئی دہلی سے دعوت ملنے کے بعد سے مختلف مقامی ذرائع ابلاغ میں مسلسل یہ خبریں آنا شروع ہو گئی تھیں کہ وفاقی کابینہ کے بیشتر اراکین وزیراعظم نواز شریف کو اس دعوت پر مثبت جواب کا مشورہ دے رہے ہیں۔
نریندر مودی پر مسلمان مخالف جذبات رکھنے کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے تاہم بھارتی مبصرین کا کہنا ہے کہ ان کی جیت کی وجہ مسٹر مودی کی اقتصادی پالیساں اور گجرات میں معاشی ترقی سے متعلق ان کارکردگی ہے۔
ہندوستان ٹائمز کے ہندی ایڈیشن کے سینئیر مدیر پرتاپ سبھوانشی پاکستانی وزیراعظم کے فیصلے کو مثبت قدم قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ملاقات کے بعد دونوں ملکوں میں تجارت اور کاروباری شعبے میں کچھ پیش رفت بھی ممکن ہے۔
’اگر نواز شریف صاحب نا آتے ان (نریندر مودی) پر دباؤ پڑتا کہ پاکستان کو لے کے اپنی حکمت عملی بتایئے۔ تو انھوں نے سیاسی (طور پر) چالاکی سے اسے مثبت موڈ میں تبدیل کر دیا۔ اگر کل کچھ ہوا تو یہ کہیں گے کہ دیکھا ہم نے تو دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا مگر انھوں نے ہاتھ کھینچ لیا۔ تو بھارتی جنتا پارٹی، سرکار دونوں ہاتھ میں لڈو رکھنے والی چیز کر رہی ہے۔‘‘
مبصرین کا کہنا ہے کہ رواں سال کے اواخر میں افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے تناظر میں پاکستان اور بھارت میں تعلقات میں بہتری خطے میں امن اور اقتصادی ترقی کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے۔
دو روزہ قیام کے دوران بھارتی صدر سے ملاقات کے علاوہ نواز شریف اور نریندر مودی کی علیحدہ سے نشست بھی طے ہے، جس میں وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید کے مطابق دونوں رہنما پاکستان اور بھارت کے درمیان مسائل کے حل بات چیت کریں گے۔
’’یہ ایک بہت اچھا موقع ہوتا ہے کہ آپ ہمسائے کے طور پر مبارکباد کا فریضہ پورا کرتے ہیں اور پھر ریاستوں کے مابین مسائل اور ان پر بات کرنے اور ایک دوسرے کو جاننے کا اچھا موقع مل جاتا ہے۔‘‘
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اب دونوں ممالک میں رائے عامہ بہتر تعلقات اور بات چیت کے ذریعے تنازعات کے حل کی حامی ہے۔
’’ہم دونوں کا ایک ماضی ہے، جس مین تلخیاں تو ضرور موجود ہیں لیکن کیا ہم اب ماضی کے اسیر بن کر رہ جائیں؟ ہم ماضی سے جان چھڑائیں اور نئے راستے تلاش کریں جس سے دونوں طرف امن و ترقی ہو اور ان واقعات سے جان چھوٹ جائے جو انہیں بھی تنگ کرتے ہیں اور ہمیں بھی۔‘‘
نواز شریف کا یہ نئی دہلی کا بطور وزیراعظم پہلا دورہ ہو گا اور گزشتہ سال اقتدار سنبھالنے کے بعد سے وہ بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی اپنی خواہش کا اظہار کرتے آئے ہیں۔
2008 میں عسکریت پسندوں کے ممبئی میں حملوں کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان جامع امن مذاکرات معطل ہو گئے تھے جو کہ ابھی تک مکمل طور پر بحال نا ہو سکے۔
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ اس دورے سے مذاکراتی عمل کے بھرپور انداز میں شروع ہونے کی راہ بھی ہموار ہو سکتی ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کی حالیہ انتخابات میں واضح برتری کے بعد رواں ہفتے دونوں ہمسایہ ملکوں کی طرف سے ایک دوسرے کے رہنماؤں کو دوروں کی دعوت کا تبادلہ دیکھنے میں آیا۔
نئی دہلی سے دعوت ملنے کے بعد سے مختلف مقامی ذرائع ابلاغ میں مسلسل یہ خبریں آنا شروع ہو گئی تھیں کہ وفاقی کابینہ کے بیشتر اراکین وزیراعظم نواز شریف کو اس دعوت پر مثبت جواب کا مشورہ دے رہے ہیں۔
نریندر مودی پر مسلمان مخالف جذبات رکھنے کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے تاہم بھارتی مبصرین کا کہنا ہے کہ ان کی جیت کی وجہ مسٹر مودی کی اقتصادی پالیساں اور گجرات میں معاشی ترقی سے متعلق ان کارکردگی ہے۔
ہندوستان ٹائمز کے ہندی ایڈیشن کے سینئیر مدیر پرتاپ سبھوانشی پاکستانی وزیراعظم کے فیصلے کو مثبت قدم قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ملاقات کے بعد دونوں ملکوں میں تجارت اور کاروباری شعبے میں کچھ پیش رفت بھی ممکن ہے۔
’اگر نواز شریف صاحب نا آتے ان (نریندر مودی) پر دباؤ پڑتا کہ پاکستان کو لے کے اپنی حکمت عملی بتایئے۔ تو انھوں نے سیاسی (طور پر) چالاکی سے اسے مثبت موڈ میں تبدیل کر دیا۔ اگر کل کچھ ہوا تو یہ کہیں گے کہ دیکھا ہم نے تو دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا مگر انھوں نے ہاتھ کھینچ لیا۔ تو بھارتی جنتا پارٹی، سرکار دونوں ہاتھ میں لڈو رکھنے والی چیز کر رہی ہے۔‘‘
مبصرین کا کہنا ہے کہ رواں سال کے اواخر میں افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے تناظر میں پاکستان اور بھارت میں تعلقات میں بہتری خطے میں امن اور اقتصادی ترقی کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے۔