پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات روز اول سے ہی اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں لیکن ان میں حالیہ مہینوں میں ایک بار پھر تناؤ میں اضافہ ہوا اور آئے روز دونوں جانب سے دشنام ترازیاں اور بیانات سامنے آتے رہتے ہیں۔
پاکستانی دفتر خارجہ نے ہفتہ کو ہی بھارتی وزراء کے حالیہ بیانات پر ردعمل میں کہا کہ کسی کو پاکستان کے دفاع اور بیرونی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے بارے میں کسی غلط فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔
بیان کے مطابق بے بنیاد الزامات اور اشتعال انگیز بیانات خطے میں امن کے قیام میں معاون ثابت نہیں ہوں گے۔
بھارتی ذرائع ابلاغ میں شائع شدہ خبروں کے مطابق وزیردفاع منوہر پاریکر نے ایک بیان میں اپنے زیر انتظام کشمیر میں بھارتی فورسز پر حملوں کا الزام پاکستان پر عائد کرتے ہوئے ان کے بقول پاکستان کو چھ ماہ میں سبق سکھانے کی دھمکی دی تھی۔
پاکستان ایسے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہتا آیا ہے کہ وہ بھارت سمیت تمام پڑوسیوں کے ساتھ اچھے ہمسایوں جیسے تعلقات کا خواہاں ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاک بھارت تعلقات میں فوری بہتری کے آثار تو دکھائی نہیں دیتے لیکن دونوں ملکوں اور خطے میں امن کے لیے ضروری ہے کہ دونوں ہمسایہ ایٹمی قوتیں تناؤ کو کم کرنے کی کوششوں پر توجہ دیں۔
پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ "یہ واحد جوہری ممالک ہیں جو باقی پانچ جوہری ممالک سے مختلف ہیں باقی پانچ جوہری طاقتیں سرد جنگ کے تناظر میں جوہری طاقتیں بنی تھیں اور ان کا آپس میں کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ یہ واحد جوہری مساوات ہے جو بنی ہی تنازعات کی بنیاد پر ہے اور اگر ذرا بھی اس میں ماچس کی تیلی لگ گئی تو خطرناک نتائج ہوں گے اس وجہ سے امید رکھنی چاہیے اور مجھے امید ہے کہ کوئی تیلی نہیں لگائے گا"۔
سینیئر تجزیہ کار حسن عسکری کہتے ہیں کہ بھارت کی طرف سے سخت بیانات ان کے بقول وہاں کی سیاسی صورتحال کے تناظر میں ہیں اور انھیں توقع ہے کہ ان بیانات کا سلسلہ چند ماہ بعد شاید ختم ہو جائے۔
"یہ ایک اندرونی سیاست ہے اور بی جے پی یہ دکھانا چاہیتی ہے کہ وہ مضبوط ہے مستحکم ہے تاکہ ریاستی انتخابات جو ابھی ہونے ہیں یا کشمیر کے ہور ہے ہیں وہاں اپنی پوزیشن کو مضبوط کرنے کے لیے قوم پرستانہ موقف لے رہی ہے، پاکستان کو اس وقت خاموشی اختیار کرنی چاہیے کیونکہ 2002 میں بھی یہی ہوا تھا جب دسمبر 2001 میں بھارتی پارلیمان پر حملہ ہوا تو دسمبر 2001 اور جنوری 2002 میں بھارت نے اپنی فوجیں پاکستانی سرحدپرلگا دیں تھیں۔ اس زمانے میں بھی اسی طرح کے بیان دے جارہے تھے پھر اکتوبر 2002 میں بھارت نے خود ہی اپنی فوجوں کو واپس بلانے کا فیصلہ کیا تھا، میرا خیال ہے کہ یہ پانچ چھ مہینوں کا معاملہ ہے، جب انہیں پانچ چھ ماہ تک انہیں کچھ حاصل نہیں ہو گا تو خود انہیں حساس ہو گا کہ گفتگو کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔"
سیاسی و عسکری سطح پر نظرآنے والی تلخی عوامی سطح پر بھی دیکھی جارہی ہے جس کی ایک تازہ ترین مثال ہفتہ کو بھارت میں جاری چیمپیئنز ٹرافی ہاکی ٹورنامنٹ کے سیمی فائنل میں بھارت کی پاکستان کے ہاتھوں شکست کے بعد دیکھی گئی۔
پاکستانی کھلاڑیوں نے فتح کے بعد گراؤنڈ میں اپنی قمیضیں اتار کر جوشیلے انداز میں خوشی منائی جس پر بھارتی شائقین اور بعد ازاں ہاکی فیڈریشن کی طرف سے انھیں سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور بعد ازاں بظاہر بھارت کےدباؤ پر دو پاکستانی کھلاڑیوں پر ایک میچ کی پابندی عائد کر دی گئی۔