پاکستان میں سال 2019 کے اختتام پر افراط زر کی شرح 12.63 فیصد ریکارڈ کی گئی جو ملک میں گزشتہ نو برسوں کے دوران سب سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔
ادارہ شماریات پاکستان کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ چھ ماہ کے دوران مہنگائی کی شرح 11 اعشاریہ 11 فی صد ریکارڈ کی گئی۔ اس سے قبل 2018 کے اختتام پر یہ شرح 6.17 تھی۔
ملک بھر کے 35 شہروں میں 356 اشیاء کی قیمتوں کے جائزے سے یہ معلوم ہوا کہ ان شہروں میں کھانے پینے کی اشیاء سب سے زیادہ مہنگی ہوئیں۔ ان اشیاء میں خشک میوہ جات، پھل، گندم، انڈے، کوکنگ آئل، مچھلی اور دال ماش شامل ہیں۔
اس کے علاوہ ملک میں بجلی کی قیمتیں، خواتین کے کپڑوں اور تعمیراتی مٹیریل کی قیمتوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ جب کہ ٹماٹر، پیاز، مرغی کے گوشت، آلو، چینی اور سبزیوں کی قیمتوں میں کمی ہوئی ہے۔
ادارہ شماریات کے مطابق ملک کے دیہی علاقوں میں بھی کھانے پینے کی اشیاء سب سے زیادہ مہنگی ہوئیں۔ اگرچہ دسمبر کے مہینے میں مہنگائی کی شرح میں معمولی کمی تو دیکھی گئی لیکن اس کے باوجود بھی یہ شرح پچھلے نو برسوں میں اب بھی سب سے بلند سطح پر موجود ہے۔
بین الاقوامی مانیٹری فنڈ نے ستمبر کی اپنی جائزہ رپورٹ میں تخمینہ لگایا تھا کہ ملک میں افراطِ زر کی شرح 13 فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔ تاہم فنڈ کی حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سال 2020 میں یہ شرح 11.8 فی صد رہنے کی توقع ہے۔
اس پر وفاقی وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی جانب سے نئے تخمینے کے تحت افراط زر کی شرح میں کمی کی توقع کرنا درحقیقت حکومت کی انتظامی اور توانائی کے شعبے میں بہتر کاردگی کا مظہر ہے۔
وزارت خزانہ کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ حکومت کے سخت اقدامات کے باعث افراط زر کی شرح میں اس سے بھی زیادہ کمی دیکھنے میں آئے گی۔ اور حکومت کی کوشش ہے کہ وسط مدت میں یہ شرح 5 فیصد تک لائی جا سکے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ سال 2020 کی پہلی سہ ماہی میں کرنٹ اکاونٹ خسارہ 74 فیصد کم ہوا ہے، اسی طرح درآمدات کا کل حجم بھی ایک سال کے دوران 23 فیصد کم ہوا ہے۔ جب کہ برآمدات میں فی الحال 2 فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے جو آئندہ دنوں میں مزید بہتر ہونے کی توقع ہے۔
تاہم کئی معاشی ماہرین حکومت کی ملک میں افراط زر پر قابو پانے کی کوششوں کو اب بھی ناکافی قرار دیتے نظر آتے ہیں۔ سابق سیکرٹری خزانہ وقار مسعود کے مطابق حکومت کی انتظامی خامیاں اور توانائی کے شعبے میں ادائیگیاں اب بھی افراط زر بڑھانے کا سبب بنی ہوئی ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے وقار مسعود کا کہنا تھا کہ مہنگائی کی بڑھتی ہوئی شرح عام عوام کے لئے انتہائی تکلیف دہ ہے، لیکن ان کے خیال میں حکومتی صفوں میں اس درد کا احساس نظر نہیں آتا۔ ان کے مطابق قیمتوں میں استحکام کے لیے حکومت کو جو بھاگ دوڑ کرنی چائیے تھی، وہ خال خال ہی نظر آرہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ قیمتوں پر کنٹرول کے لئے ایک جانب جہاں مجسٹریسی نظام کو زیادہ اختیارات دینے کے ساتھ سختی سے نافذ کرنے کی ضرورت محسوس کی جا رہی وہیں ہنگامی بنیادوں پر سستے بازار لگانے چاہیئں تاکہ غریبوں کو سستی اشیاء میسر آ سکیں۔
وقار مسعود کے مطابق پیٹرول کی قیمتوں میں حالیہ اضافے سے مہنگائی کا ایک اور طوفان آئے گا۔ اس وقت حکومت پیٹرولیم مصنوعات پر 30 فیصد کے لگ بھگ ٹیکس وصول کر رہی ہے۔ اس عمل سے نقل و حمل مزید مہنگا ہونے کے باعث اشیائے خورد و نوش سمیت دیگر اشیاء مہنگی ہو رہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو فی الحال پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے گریز کرنا چائیے تھا۔ تاہم حکومت آئی ایم ایف کے تحت ہونے والے معاہدے کی شرائط کے تحت وصولی کا ٹرگٹ پورا کرنے کے لئے عوام کو ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبا رہی ہے۔
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ لوگوں کی قوت خرید کم ہو گئی ہے، جس کے باعث ملک میں پیٹرولیم کی کھپت میں 20 فیصد سے زائد کمی ہوئی ہے۔ پہلی سہ ماہی میں لارج اسکیل یونٹس کی پیداور میں ساڑھے چھ فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔ آٹو موبل انڈسٹری کی پیداوار کم ہونے سے وہاں سے بڑی تعداد میں کارکنوں کو فارغ کیا گیا ہے جب کہ برآمدات میں معمولی اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ اس مقصد کے لئے پالیسی حل تلاش کرنے کی ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی ہے۔
ان کے خیال میں ترقیاتی اخراجات کو بڑھایا جائے، عوام پر بوجھ ڈالنے والے ٹیکسوں کی شرح میں کمی کی جائے اور معاشرے کے انتہائی غریب طبقے کی مدد کے لئے بے نظیر انکم سپورٹ کے تحت امداد بحال کی جائے تاکہ لوگوں کو کچھ ریلیف مل سکے۔