برطانیہ کے دارالحکومت لندن میں ہفتے کی شب حملہ کرنے والے تین افراد میں سے ایک کی شناخت پاکستانی نژاد برطانوی شہری 27 سالہ خرم بٹ کے طور پر ہوئی ہے۔
خرم بٹ کا تعلق صوبہ پنجاب کے ضلعے جہلم سے ہے اور اطلاعات کے مطابق آخری مرتبہ وہ لگ بھگ چار سال قبل پاکستان آئے تھے۔
اگرچہ سرکاری طور پر کچھ نہیں بتایا گیا کہ خرم بٹ کے اس حملے میں ملوث ہونے سے متعلق پاکستان میں کوئی تفتیش کی جارہی ہے یا نہیں لیکن جہلم پولیس کے ایک افسر نے نام ظاہر کیے بغیر بتایا ہے کہ جہلم میں خرم بٹ کے ایک رشتہ دار کے ریستوران پر جا کر سادہ لباس اہلکاروں نے کچھ پوچھ گچھ کی ہے۔
باضابطہ طور پر پولیس کی طرف سے اس بارے میں کچھ نہیں کہا گیا۔ البتہ عموماً ایسے واقعات کے بعد کارروائی یا تفتیش کرنے والوں کا تعلق انٹیلی جنس اداروں سے ہوتا ہے۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ خرم بٹ کے خاندان سے متعلق کبھی کوئی ایسی شکایت سامنے نہیں ائی کہ وہ انتہا پسندی کی جانب مائل ہیں۔
پاکستان کے سابق سیکرٹری داخلہ اور تجزیہ کار تسنیم نورانی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ عموماً اس طرح کی واقعات کی تفتیش کے سلسلے میں برطانیہ پاکستان سے رابطہ کرتا ہے۔
’’اگر کوئی پاکستانی وہیں پیدا ہوا ہو، اور پلا بڑھا ہو تو پھر تو اس کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں۔۔۔ ان (خرم بٹ) کے بارے میں جو میں نے پڑھا ہے وہ ہیں تو برطانوی شہری لیکن پاکستان میں پیدا ہوئے ہیں۔ اس میں ابھی یہ دیکھنا ہو گا کہ وہ کسی تربیت کے لیے تو پاکستان نہیں آیا، اس کے لیے برطانوی حکام پاکستانی حکومت سے رابطہ کر سکتے ہیں۔‘‘
تسنیم نورانی کا کہنا ہے کہ ایک بڑی تعداد میں پاکستانی جہلم اور دیگر علاقوں سے برطانیہ میں مقیم ہیں اور اُن کے بقول اگر پاکستان سے تعلق رکھنے والے افراد کا نام بار بار کسی ملک میں انتہا پسندی یا شدت پسندی کے حوالے سے سامنے آتا ہے تو اس سے پاکستان سے برطانیہ سفر کرنے والوں کے لیے قوانین بھی مزید سخت ہو سکتے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ اس طرح کے معاملات کی تحقیقات میں پاکستان عموماً دیگر ملکوں کے سات تعاون کرتا آیا ہے۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ، ’’ایسے واقعات کی تفتیش انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اہلکار بھی کر سکتے ہیں اور پولیس بھی۔۔۔ اگر کسی کو گرفتار کرنا ہو یا اُن کے خلاف کوئی کیس بنانا ہو تو پولیس کو شامل کر لیا جاتا ہے۔‘‘
تسنیم نورانی کا کہنا تھا کہ اس طرح کے واقعات کے بعد بیرون ملک مقیم وہ پاکستانی جن کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اُن کے لیے بھی پریشانیاں بڑھ جاتی ہیں۔
’’99 فیصد لوگ جو اس قسم کی چیز میں ملوث نہیں ہیں وہ بھی متاثر ہوتے ہیں اور اُن کو ثابت کرنا پڑتا ہے کہ ہم دہشت گرد نہیں ہیں۔۔۔ یعنی ہر دفعہ جب اس طرح کا واقعہ ہوتا ہے تو اُنھیں بڑا وقت لگتا ہے خود کو سنبھالنے میں اور وہ بہت متاثر ہوتے ہیں۔‘‘
واضح رہے کہ اس سے قبل بھی بیرون ملک حملوں میں پاکستانی شہریوں کے ملوث ہونے کے واقعات سامنے آ چکے ہیں۔
دسمبر 2015 میں پاکستانی نژاد تاشفین ملک اور اُن کے شوہر رضوان فاروق نے امریکہ کی ریاست کیلی فورنیا میں معذور افراد کی بحالی کے ایک مرکز فائرنگ کی تھی جس میں کم از کم 14 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
تاشفین ملک کا تعلق صوبہ پنجاب کے جنوبی ضلع لیہ سے تھا۔