ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر دستخط کے لئے وقت کا انتخاب معاشی نہیں سیاسی طور پر کیا گیا۔
'وائس آف امریکہ' سے بات کرتے ہوئے ماہر معاشیات اور عالمی مالیاتی فنڈ کے سابق عہدیدار زبیر اقبال نے کہا ہے کہ پاکستان اور ایران کے درمیان دو تین سال پہلے بھی اس معاہدے پر پیش رفت ہو سکتی تھی۔
لیکن، ان کے بقول، ایسا نہیں کیا گیا کیونکہ امید تھی کہ امریکہ اور کچھ دوسرے ملک پاکستان کی مدد کر یں گے، جس سے اندرون ملک توانائی کی پیداوار بڑھ جائے گی۔ لیکن اب جب کہ پیپلز پارٹی کی حکومت کی میعاد ختم ہورہی ہے، ایسا نیا معاہدہ شروع کرنے سے زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔
زبیر اقبال کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں امریکی پابندیاں پائپ لائن پر نہیں، گیس کے فلو پر لگیں گی۔ اس لیے پاکستان اور ایران کے پاس تقریبا ایک یا ڈیڑھ سال کی مدت ہے، یہ دیکھنے کے لیے کہ اس موقع کا کیسے استعمال کیا جائے۔
"امید یہ ہونی چاہئے کہ امریکہ اور ایران کے درمیان تعلقات میں بہتری آجائے گی۔ حالیہ دنوں میں قازقستان میں ہونےو الے مذاکرات نے دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری کی امید دلائی ہے۔ اگر امریکہ اور ایران کے تعلقات بہتری کی طرف جاتے ہیں تو گیس پائپ لائن پر امریکی پابندیاں بتدریج کم ہو جائیں گی۔ اور ایسا ہوا تو پاکستان ایران گیس پائپ لائن کا مقصد حاصل ہو جائے گا"۔
زبیر اقبال کا کہنا تھا کہ پاکستان میں توانائی کی پیداوار اور تقسیم کا بیلنس خراب ہو چکا ہے۔ ان کے بقول، "ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان میں 65 فیصد نان ہائیڈل بجلی کی پیداوار ہو اور کم از کم 35 فیصد ہائیڈل انرجی پیدا کی جائے۔ لیکن اس وقت پاکستان میں تقریباً پندرہ فیصد ہائیڈل پاور پیدا کی جا رہی ہے۔ اس لئے کوشش یہ ہونی چاہئے کہ پانی سے بجلی کی پیداوار بڑھائی جائے اور پہلے سے موجود تھرمل پاور پلانٹس کی مرمت کرکے بجلی کی پیداوار میں اضافہ کیا جائے"۔
زبیر اقبال کہتے ہیں کہ حکومت بجٹ کے ذریعے صارفین کو جو سبسڈیز دیتی ہے، انہیں ختم کر دینا چاہیے کیونکہ ان سے غریبوں کے بجائے امیروں کو ریلیف ملتا ہے، آمدنی کی تقسیم متاثر ہوتی ہے اور معاشرتی ناہمواری بڑھتی ہے۔ اس لیے بجلی کی قیمت کو مناسب کرنا اور پیداواری گنجائش بڑھانا ضروری ہے۔
زبیر اقبال نے کہا کہ پاکستان میں انتخابات کا کوئی مثبت نتیجہ نکلنا ضروری ہے کیونکہ اگر اسے اپنے معاشی مسئلے حل کرنے ہیں تو ڈومیسٹک ایڈجسٹمنٹ کرنی ہوگی۔ اس کے لئے بیرونی ایڈجسٹمنٹ یا باہر کے پیسوں کی ضرورت نہیں ہے۔
’’میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر پاکستان ایسی ڈومیسٹک ایڈجسٹمنٹ کے لئے تیار ہو، تو آئی ایم ایف پاکستان کو آٹھ سے نو ملین ڈالرز دو سے تین سال کے لئے دے سکتا ہے۔ اور اس کی وجہ سے ورلڈ بینک اور دوسری ایجنسیز سے مزید پیسے مل سکتے ہیں۔ لیکن پاکستان کا معاشی مسئلہ اندرونی ہے۔ اس کو ٹھیک بھی اندر سے ہی کیا جاسکتا ہے"۔
'وائس آف امریکہ' سے بات کرتے ہوئے ماہر معاشیات اور عالمی مالیاتی فنڈ کے سابق عہدیدار زبیر اقبال نے کہا ہے کہ پاکستان اور ایران کے درمیان دو تین سال پہلے بھی اس معاہدے پر پیش رفت ہو سکتی تھی۔
لیکن، ان کے بقول، ایسا نہیں کیا گیا کیونکہ امید تھی کہ امریکہ اور کچھ دوسرے ملک پاکستان کی مدد کر یں گے، جس سے اندرون ملک توانائی کی پیداوار بڑھ جائے گی۔ لیکن اب جب کہ پیپلز پارٹی کی حکومت کی میعاد ختم ہورہی ہے، ایسا نیا معاہدہ شروع کرنے سے زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔
زبیر اقبال کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں امریکی پابندیاں پائپ لائن پر نہیں، گیس کے فلو پر لگیں گی۔ اس لیے پاکستان اور ایران کے پاس تقریبا ایک یا ڈیڑھ سال کی مدت ہے، یہ دیکھنے کے لیے کہ اس موقع کا کیسے استعمال کیا جائے۔
"امید یہ ہونی چاہئے کہ امریکہ اور ایران کے درمیان تعلقات میں بہتری آجائے گی۔ حالیہ دنوں میں قازقستان میں ہونےو الے مذاکرات نے دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری کی امید دلائی ہے۔ اگر امریکہ اور ایران کے تعلقات بہتری کی طرف جاتے ہیں تو گیس پائپ لائن پر امریکی پابندیاں بتدریج کم ہو جائیں گی۔ اور ایسا ہوا تو پاکستان ایران گیس پائپ لائن کا مقصد حاصل ہو جائے گا"۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان میں 65 فیصد نان ہائیڈل بجلی کی پیداوار ہو اور کم از کم 35 فیصد ہائیڈل انرجی پیدا کی جائے۔
زبیر اقبال کہتے ہیں کہ حکومت بجٹ کے ذریعے صارفین کو جو سبسڈیز دیتی ہے، انہیں ختم کر دینا چاہیے کیونکہ ان سے غریبوں کے بجائے امیروں کو ریلیف ملتا ہے، آمدنی کی تقسیم متاثر ہوتی ہے اور معاشرتی ناہمواری بڑھتی ہے۔ اس لیے بجلی کی قیمت کو مناسب کرنا اور پیداواری گنجائش بڑھانا ضروری ہے۔
اگر پاکستان ایسی ڈومیسٹک ایڈجسٹمنٹ کے لئے تیار ہو، تو آئی ایم ایف پاکستان کو آٹھ سے نو ملین ڈالرز دو سے تین سال کے لئے دے سکتا ہے۔ اور اس کی وجہ سے ورلڈ بینک اور دوسری ایجنسیز سے مزید پیسے مل سکتے ہیں۔
’’میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر پاکستان ایسی ڈومیسٹک ایڈجسٹمنٹ کے لئے تیار ہو، تو آئی ایم ایف پاکستان کو آٹھ سے نو ملین ڈالرز دو سے تین سال کے لئے دے سکتا ہے۔ اور اس کی وجہ سے ورلڈ بینک اور دوسری ایجنسیز سے مزید پیسے مل سکتے ہیں۔ لیکن پاکستان کا معاشی مسئلہ اندرونی ہے۔ اس کو ٹھیک بھی اندر سے ہی کیا جاسکتا ہے"۔