اسلام آباد —
پاکستان نے کہا ہے کہ اسلام آباد اور تہران کے تعلقات کسی مخصوص واقعہ کے باعث پٹڑی سے نہیں اتر سکتے۔ دفتر خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم نے جمعرات کو ہفتہ وار نیوز بریفنگ میں کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان تناؤ یا تلخی نہیں ہے۔
رواں ماہ کے اوائل میں شدت پسندوں نے ایران کے پانچ سکیورٹی اہلکاروں کو اغواء کیا تھا جس کے بعد ایرانی وزیر داخلہ نے ایک بیان میں متنبہ کیا تھا کہ اگر پاکستان نے اُس کے اہلکاروں کو رہا کرانے کے لیے کچھ نا کیا تو اُن کا ملک اس کام کے لیے اپنی فورسز پاکستانی حدود میں بھیج سکتا ہے۔
پاکستان نے ایرانی وزیر داخلہ کے بیان پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ پڑوسی ملک کو ہر گز پاکستانی حدود میں داخل ہو کر کارروائی کا کوئی اختیار نہیں۔
تاہم تسنیم اسلم نے جمعرات کو کہا کہ ایک واقعہ سے دونو ں ملکوں کے تعقلقات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ انھوں نے کہا کہ ایران کے صدر حسن روحانی نے تہران میں بدھ کے روز پاکستان کے سفیر سے ملاقات بھی کی تھی جس میں ایران کے سرحدی محافظوں کے اغواء کا مسئلہ زیر بحث بھی آیا۔
تسنیم اسلم نے کہا کہ پاکستان یہ سمجھتا ہے کہ دونوں ملکوں کے تعلقات کو سرحد پر ہونے والے ایک چھوٹے سے واقعے کے تناظر میں نہیں دیکھنا چاہیئے۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور ایران کے درمیان سرحدی کمیشن کے اعلٰی عہدیداروں کا اجلاس بھی ہوا جس میں ایرانی سکیورٹی گارڈز کے اغواء کے معاملے پر بات چیت کی گئی۔ تاہم اُنھوں نے اس کی مزید تفصیلات نہیں بتائیں۔
اُنھوں نے کہا کہ پاکستان ایران اور افغانستان کی مشترکہ سرحد پر جرائم پیشہ عناصر کارروائیاں کرتے رہتے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ تینوں ان کے سدباب کے لیے مل کر حکمت عملی تیار کریں۔
ایران سرحدی محافظوں کو ایرانی حدود کے پانچ کلو میٹر اندر سے چھ فروری کو شدت پسندوں نے اغواء کر لیا تھا جس کی ذمہ داری عسکریت پسند گروپ جیش العدل نے قبول کی تھی۔
سکیورٹی اہلکاروں کے اغواء کے بعد ایرانی عہدیداروں کا موقف تھا کہ انھیں شدت پسند پاکستانی حدود میں لے گئے ہیں تاہم پاکستان یہ کہہ چکا ہے کہ اس طرح کے کوئی شواہد نہیں ملے کہ ایران کے اہلکاروں کو اُس کی حدود میں لایا گیا ہو۔
پاکستان یہ کہہ چکا ہے کہ بلوچستان میں فرنٹئیر کور کے اہلکار تلاشی کا کام جاری رکھے ہوئے ہیں اور اس بارے میں ایرانی حکام کو بھی باخبر رکھا جا رہا ہے۔
رواں ماہ کے اوائل میں شدت پسندوں نے ایران کے پانچ سکیورٹی اہلکاروں کو اغواء کیا تھا جس کے بعد ایرانی وزیر داخلہ نے ایک بیان میں متنبہ کیا تھا کہ اگر پاکستان نے اُس کے اہلکاروں کو رہا کرانے کے لیے کچھ نا کیا تو اُن کا ملک اس کام کے لیے اپنی فورسز پاکستانی حدود میں بھیج سکتا ہے۔
پاکستان نے ایرانی وزیر داخلہ کے بیان پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ پڑوسی ملک کو ہر گز پاکستانی حدود میں داخل ہو کر کارروائی کا کوئی اختیار نہیں۔
تاہم تسنیم اسلم نے جمعرات کو کہا کہ ایک واقعہ سے دونو ں ملکوں کے تعقلقات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ انھوں نے کہا کہ ایران کے صدر حسن روحانی نے تہران میں بدھ کے روز پاکستان کے سفیر سے ملاقات بھی کی تھی جس میں ایران کے سرحدی محافظوں کے اغواء کا مسئلہ زیر بحث بھی آیا۔
تسنیم اسلم نے کہا کہ پاکستان یہ سمجھتا ہے کہ دونوں ملکوں کے تعلقات کو سرحد پر ہونے والے ایک چھوٹے سے واقعے کے تناظر میں نہیں دیکھنا چاہیئے۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور ایران کے درمیان سرحدی کمیشن کے اعلٰی عہدیداروں کا اجلاس بھی ہوا جس میں ایرانی سکیورٹی گارڈز کے اغواء کے معاملے پر بات چیت کی گئی۔ تاہم اُنھوں نے اس کی مزید تفصیلات نہیں بتائیں۔
اُنھوں نے کہا کہ پاکستان ایران اور افغانستان کی مشترکہ سرحد پر جرائم پیشہ عناصر کارروائیاں کرتے رہتے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ تینوں ان کے سدباب کے لیے مل کر حکمت عملی تیار کریں۔
ایران سرحدی محافظوں کو ایرانی حدود کے پانچ کلو میٹر اندر سے چھ فروری کو شدت پسندوں نے اغواء کر لیا تھا جس کی ذمہ داری عسکریت پسند گروپ جیش العدل نے قبول کی تھی۔
سکیورٹی اہلکاروں کے اغواء کے بعد ایرانی عہدیداروں کا موقف تھا کہ انھیں شدت پسند پاکستانی حدود میں لے گئے ہیں تاہم پاکستان یہ کہہ چکا ہے کہ اس طرح کے کوئی شواہد نہیں ملے کہ ایران کے اہلکاروں کو اُس کی حدود میں لایا گیا ہو۔
پاکستان یہ کہہ چکا ہے کہ بلوچستان میں فرنٹئیر کور کے اہلکار تلاشی کا کام جاری رکھے ہوئے ہیں اور اس بارے میں ایرانی حکام کو بھی باخبر رکھا جا رہا ہے۔