انگلینڈ کے ہاتھوں ہفتے کو کولکتہ میں شکست کے ساتھ ہی پاکستان کا ورلڈ کپ میں سفر ختم ہوگیا۔ میگا ایونٹ کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ جب پاکستان کی ٹیم مسلسل تیسری مرتبہ سیمی فائنل کی دوڑ سے قبل باہر ہوئی ہو۔
سال 1975میں ہونے والے پہلے ورلڈ کپ میں تو پاکستان ٹیم نے ناک آؤٹ مرحلے میں جگہ نہیں بنائی تھی لیکن اس کے بعد ہونے والے چھ ورلڈ کپ مقابلوں میں سے پانچ کے سیمی فائنل اور دو کے فائنل کھیلے تھے۔
سال 2003 اور 2007 کے ایڈیشن میں مایوس کن کارکردگی کے بعد پاکستان نے 2011 میں میگا ایونٹ کا سیمی فائنل کھیلا تھا جس کے بعد سے اب تک کوئی بھی کپتان گرین شرٹس کو ناک آؤٹ مرحلے تک پہنچا نہیں سکا۔
اس مرتبہ امید کی جارہی تھی کہ پاکستان ٹیم عالمی رینکنگ میں نمبر ون ہونے کی وجہ سے کم از کم سیمی فائنل میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوگی۔ لیکن بابر اعظم کی قیادت میں گرین شرٹس نے 9 میں سے صرف 4 میچز جیتے جس کے بعد ان کا سفر پہلے ہی راؤنڈ میں ختم ہوگیا۔
گرین شرٹس نے ایونٹ کے دوران کوالیفائی کرکے آنے والی نیدرلینڈز اور سری لنکا کے ساتھ ساتھ بنگلہ دیش کو شکست دی جب کہ نیوزی لینڈ کے خلاف اہم میچ میں انہیں بارش کی وجہ سے ڈی ایل ایس میتھڈ نے فاتح قرار دیا گیا۔
آسٹریلیا، انگلینڈ، بھارت اور جنوبی افریقہ نے تو پاکستان کو ایونٹ میں شکست دی ہی، افغانستان کے ہاتھوں شکست نے بابر اعظم الیون کو ان دو قیمتی پوائنٹس سے محروم کردیا جسے حاصل کرکے وہ لاسٹ فور میں جگہ بناسکتے تھے۔
پاکستان کے ورلڈ کپ میں سفر پر نظر ڈال کر یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس مرتبہ اس مایوس کن کارکردگی کی وجہ کیا تھی اور کیوں پاکستانی ٹیم مسلسل تیسری مرتبہ ورلڈ کپ کے ناک آؤٹ مرحلے سے پہلے ہی باہر ہوئی؟
پاکستانی کھلاڑیوں کی انفرادی کارکردگی
بھارت میں جاری ورلڈ کپ مقابلوں میں اگر ٹاپ ٹین بلے بازوں کی بات کی جائے تو نو میچوں کھیلنے کے بعد اس فہرست میں ایک پاکستانی بھی شامل نہیں ہے۔
اس ایونٹ میں سب سے کامیاب پاکستانی بلے باز وکٹ کیپر محمد رضوان رہے جنہوں نے ایک سینچری اور ایک نصف سینچری کی مدد سے 47 کی اوسط سے 395 رنز بنائے۔
ایک ایسے دور میں جب ٹاپ ٹین میں موجود آٹھ کھلاڑیوں کا اسٹرایئک ریٹ 100 سے زیادہ ہے۔ محمد رضوان کا 95 اسٹرایئک ریٹ رہا ہے۔
آٹھ میچوں میں 42 کی اوسط سے 336 رنز بنانے والے عبداللہ شفیق دوسرے اور 40 کی اوسط سے 320 رنز بنانے والے کپتان بابر اعظم گرین شرٹس کے تیسرے کامیاب بلے باز تھے۔
تین نصف سینچریاں اور ایک سینچری بنانے والے عبداللہ شفیق کا اسٹرائیک ریٹ 93 جب کہ چار نصف سینچریاں اسکور کرنے والے بابر اعظم کا 83 کے لگ بھگ رہا۔ مبصرین کے مطابق ماڈرن طرز کی کرکٹ میں یہ اسٹرائیک ریٹ کم سمجھا جاتا ہے۔
سب سے اہم بات یہ تھی کہ پاکستان کو نیوزی لینڈ کے خلاف فتح دلانے والے فخر زمان کے حصے میں صرف چار ہی میچ آئے۔
فخر زمان نے 122 عشاریہ نو کے اسٹرائیک ریٹ سے ایک سینچری اور ایک نصف سینچری کی مدد سے 220 رنز بنائے اور 18 چھکوں کے ساتھ سب سے زیادہ چھکے مارنے والے کھلاڑیوں کی فہرست میں شامل ہوگئے۔
پاکستان کی بالنگ
بالرز کی بات کی جائے تو یہاں ٹاپ ٹین میں دو پاکستانی فاسٹ بالرز موجود ہیں۔
اس وقت نو میچز میں 18 کھلاڑیوں کو آؤٹ کرکے شاہین آفریدی چوتھے کامیاب ترین بالر ہیں جب کہ اتنے ہی میچوں میں 16 شکار کے ساتھ حارث رؤف کا آٹھواں نمبر ہے۔
جہاں شاہین آفریدی کا فی اوور رنز کا تناسب چھ رنز کے قریب ہے، حارث رؤف نے 6 عشاریہ سات چار کے ریٹ سے رنز دیے۔
نو میچز میں 533 رنز دے کر وہ ایونٹ کے سب سے مہنگے بالر بھی ثابت ہوئے۔
حیران کن طور پر میگا ایونٹ میں پاکستانی اسپنر خاطر خواہ کارکردگی نہ دکھاسکے۔ خاص طور پر اس وقت جب دیگر ٹیموں کے اسپنرز نے وکٹوں کے انبار لگادیے۔
پاکستان بالرز اور بلے بازوں سے بھی زیادہ مایوس کن کارکردگی رہی فیلڈرز کی جو میگا ایونٹ کے دوران پاکستان کرکٹ کی جگ ہنسائی کا سبب بنے۔
آسٹریلیا کے خلاف میچ میں ڈیوڈ وارنر کا ڈراپ کیچ ہو یا انگلش آل راؤنڈر بین اسٹوکس کو موقع دینے کی بات ہو، گرین شرٹس کی فیلڈنگ کو کمنٹیٹرز نے متعدد مرتبہ مضحکہ خیز قرار دیا۔
بابر اعظم کی کپتانی گرین شرٹس کی شکست؟
بابر اعظم ورلڈ کپ سے قبل نہ صرف ون ڈے رینکنگ میں ٹاپ بلے باز تھے بلکہ وہ پاکستان کو بھی بطور کپتان آئی سی سی رینکنگ میں ٹاپ پوزیشن پر لے گئے تھے۔
تاہم ایشیا کپ میں مایوس کن کارکردگی کے باوجود ان کا اپنی پسند کے کھلاڑیوں کو منتخب کرنا، گرین شرٹس کو میگا ایونٹ میں مہنگا پڑگیا۔
اس ٹیم کے اعلان کے ساتھ ہی محمد حفیظ نے بورڈ کی کرکٹ کمیٹی سے استعفی دے دیا تھا کیوں کہ وہ اس سلیکشن سے مطمئن نہیں تھے۔
دورانِ ورلڈ کپ جب پی سی بی کی کرکٹ کمیٹی کے سربراہ مصباح الحق سے اس سلیکشن کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے اس کا ذمہ دار چیف سلیکٹر انضمام الحق اور کپتان بابر اعظم کو قرار دیا۔
یہ بابر اعظم ہی تھے جنہوں نے ایشیا کپ میں سری لنکا کے خلاف اہم میچ میں اچھی بالنگ کرنے والے زمان خان کی جگہ آؤٹ آف فارم حسن علی کو ورلڈ کپ اسکواڈ میں نسیم شاہ کے متبادل کے طور پر رکھا ۔
انہوں نے ہی پرفارمنس نہ ہونے کے باوجود شاداب خان اور محمد نواز پر اعتماد کیا۔
اوپنرز کا فارم میں نہ ہونا اور محمد رضوان کا بدستور نمبر چار پر بیٹنگ کرنا بھی بابر اعظم کے حق میں نہیں گیا۔
مبصرین نے ان کی فیلڈ پلیسنگ کو بھی ان کی کپتانی کا کمزور پہلو قرار دیا جب کہ سعود شکیل اور افتخار احمد جیسے بلے بازوں سے لوئر مڈل آرڈر میں بیٹنگ کرانے کو بھی زیادہ پسند نہیں کیا گیا۔
لیگ اسپنر اسامہ میر کو نائب کپتان شاداب خان کے مقابلے میں کم مواقع دینا، مسٹری اسپنر ابرار احمد کو بینچ پر بٹھانا اور سلمان علی آغا کو بطور آل راؤنڈر منتخب کرکے ان سے صرف پانچ اوورز کرانے پر بھی بابر اعظم کو تنقید کا سامنا رہا۔
سوشل میڈیا صارفین کے مطابق امپائرز کے کچھ فیصلے پاکستان کے خلاف گئے لیکن پاکستان ٹیم کا ایونٹ میں سفر ختم اس لیے ہوا کیوں کہ انہوں نے دورِ حاضر کی کرکٹ نہیں کھیلی۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کا دورانِ میگا ایونٹ کردار
پاکستان کرکٹ بورڈ نے ورلڈ کپ سے قبل 12 ماہ کے دوران تین چیئرمین بدلے جس کی وجہ سے گرین شرٹس کی تیاریاں بری طرح متاثر ہوئیں۔
گزشتہ سال کے آخر تک رمیز راجہ پی سی بی کے چیئرمین تھے جب کہ دسمبر میں حکومت نے نجم سیٹھی کو بورڈ کی مینجمنٹ کمیٹی کا چیئرمین نامزد کردیا تھا۔
حکومتی عہدیدار کی مداخلت پر رواں سال جون میں نجم سیٹھی کی جگہ پی سی بی کی مینجمنٹ کمیٹی کی چیئرمین شپ ذکا اشرف کو دے دی گئی جس کے بعد بورڈ میں چیف سلیکٹر سمیت کئی نئے افراد تعینات ہوئے۔
انضمام الحق کی بطور چیف سلیکٹر آمد کے بعد اگست میں سری لنکا کی مشکل کنڈیشنز میں گرین شرٹس نے پہلے افغانستان کے خلاف وائٹ بال سیریز کھیلی۔
پھر ستمبر میں سری لنکا میں ہی انہیں ایشیا کپ کے میچز کھیلنا پڑے جس کی وجہ سے ماہرین کی رائے میں وہ تھکاوٹ کا شکار ہوگئے۔
انضمام الحق کا ورلڈ کپ سے پہلے ٹیم منتخب کرنا، پھر میگا ایونٹ کے دوران جاکر ٹیم کو مشورے دینا اور بعد میں ایک اسکینڈل کی زد میں آنے پر دورانِ ایونٹ استعفیٰ دینا بھی پاکستان ٹیم کی کارکردگی پر اثر انداز ہوا۔
یہی نہیں، بابر اعظم کی قیادت میں کھلاڑیوں کی بورڈ سے سینٹرل کنٹریکٹ پر مشاورت ورلڈ کپ روانگی تک جاری رہی جسے دستخط کے لیے بعد میں بھارت بھیجا گیا۔
میگا ایونٹ کے دوران ایک رپورٹ بھی سامنے آئی جس کے مطابق پانچ ماہ سے کھلاڑیوں کو نتخواہ نہیں ملی جس پر انٹرنیشنل میڈیا نے بورڈ اور کھلاڑیوں دونوں پر خوب تنقید کی۔
چیئرمین ذکا اشرف کے بھارت جاکر احمد آباد میں پاکستان بھارت میچ سے قبل کھلاڑیوں سے ملاقات کو مبصرین نے غیر ضروری قرار دیا۔
جب کہ مبصرین نے بورڈ کی جانب سے جاری کردہ اس پریس ریلیز کو بھی مضحکہ خیز قرار دیا جس میں ٹیم سلیکشن کا ذمہ دار کپتان اور چیف سلیکٹر کو قرار دیا گیا تھا۔
اسی طرح پی سی بی نے ورلڈ کپ میں بطور میڈیا مینیجر فرائض انجام دینے والے احسن افتخار ناگی کو بھی صرف اس لیے واپس بلا لیا کیوں کہ کچھ صحافیوں نے ان کے خلاف شکایات کی تھیں۔
سب سے اہم بات جو دورانِ میگا ایونٹ سامنے آئی وہ سابق کپتان راشد لطیف کا وہ الزام تھا جس کے مطابق چیئرمین پی سی بی ذکا اشرف کپتان بابر اعظم کا فون نہیں اٹھا رہے تھے۔
اس الزام کا جواب ذکا اشرف نے ایک ٹی وی انٹرویو میں دیتے ہوئے پہلے کہا کہ بورڈ کا چیئرمین کپتان کا فون نہیں اٹھاتے اور بعد میں ایک اور عہدیدار کو کیے گئے واٹس ایپ اسکرین شاٹ کو لیک کرنے کی اجازت دی جس پر اس شو میں موجود سابق کپتان اظہر علی نے بھی تنقید کی۔
آخر میں بات پاکستانی کپتان بابر اعظم کی بھارتی کھلاڑی وراٹ کوہلی سے شکست کے بعد سرِ عام شرٹ لینے کی جس پر سابق کپتان وسیم اکرم اور بھارتی لیجنڈ سنیل گواسکر نے بھی تنقید کی۔
ان کا کہنا تھا کہ حریف کھلاڑی سے شرٹ ڈریسنگ روم میں بھی لی جاسکتی تھی۔ گراؤنڈ میں شکست کے بعد ایسا کرنا ٹھیک نہیں تھا۔