حکومت پاکستان نے ٹرانس جینڈر افراد میں ہیلتھ کارڈ تقسیم کرنے کا عمل شروع کر دیا ہے جس کا مقصد اُنہیں صحت سے متعلق سہولتوں کے سلسلے میں برتے جانے والے امتیازی سلوک سے بچانا ہے۔
پاکستان میں ٹرانس جینڈر افراد کو اکثر علاج فراہم کرنے سے اس لیے انکار کر دیا جاتا ہے، کہ ڈاکٹر یہ فیصلہ نہیں کر پاتے کہ اُنہیں مردوں کے وارڈ میں رکھا جائے یا پھر عورتوں کے۔
ٹرانس جینڈر افراد کے لیے ہیلتھ کارڈ جاری کرتے ہوئے پاکستانی وزیرِ اعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے ہیلتھ ڈاکٹر ظفر مرزا کا کہنا تھا کہ پاکستان بھر میں موجود تمام بڑے اسپتالوں میں ٹرانس جینڈر مریضوں کے لیے الگ وارڈ بنائے جائیں گے۔
پاکستان میں ٹرانس جینڈر لوگوں کو 2012 میں سرکاری طور پر تیسری صنف کے طور پر تسلیم کیا گیا تھا۔ تاہم، یہ لوگ معاشرے میں بدستور عدم مساوات اور امتیازی سلوک کا شکار رہے۔ انہیں تضحیک آمیز رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ان کے خاندان انہیں نظرانداز کرتے ہیں، انہیں پر تشدد حملوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کی جنس کی تشخیص سے متعلق سرجری کے لیے بھی عدالتی حکم، خاندان کی منظوری، ماہر نفسیات کا سرٹیفکیٹ اور طبی مشورہ درکار ہوتا ہے۔
اس سلسلے میں پاکستان کی سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا کہ حکومت شناختی کارڈ پر ٹرانس جینڈر برادری کے لوگوں کا اندراج تیسری صنف کے طور پر کرے۔
حکومت کے اس تازہ اقدام کے تحت ان لوگوں کے لیے ہیلتھ کارڈ کا اجرا بھی وہی ادارہ، یعنی نادرا کرے گا، جو شناختی کارڈ جاری کرتا ہے۔
ڈاکٹر ظفر مرزا نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت ان تمام ٹرانس جینڈر افراد کو ہیلتھ کارڈ جاری کرے گی جن کے شناختی کارڈ میں ان کی صنف کا درست اندراج موجود ہو۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی ٹرانس جینڈر شخص اپنے شناختی کارڈ پر اپنی صنف کے اندراج میں تبدیلی کرانا چاہتا ہے تو اس کیلئے صرف ایک بار یہ موقع فراہم کیا جائے گا۔
وزیر اعظم کے مشیر کا مزید کہنا تھا کہ حکومت ملک کے تمام شہریوں کو صحت کی سہولتوں سمیت تمام حقو ق فراہم کرنے کیلئے قانونی طور پر پابند ہے۔
ٹرانس جینڈر افراد کو ملک کے دور دراز اور قدامت پسند علاقوں میں خصوصاً زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
تاہم، حالیہ برسوں کے دوران پاکستان بھر میں اس برادری کے لوگوں کے حقوق کے بارے میں شعور بہتر ہوا ہے اور 2018 میں 21 سالہ مارویہ ملک پاکستان کی پہلی ٹرانس جینڈر نیوز کاسٹر بن گئیں۔ اس کے علاوہ ملک کے سرکاری اداروں میں بھی انہیں ملازمتیں فراہم کی جانے لگی ہیں۔