رسائی کے لنکس

اسلام آباد: صحافی طحٰہ صدیقی پر ’حملے‘ کی تحقیقات جاری


سوشل میڈیا پر بعض پیغامات پوسٹ کرنے پر طحٰہ صدیقی کو گزشتہ سال کے وسط میں وفاقی تحقیقاتی ادارے نے تفتیش کے لیے بلایا تھا۔

اسلام آباد میں پولیس کا کہنا ہے کہ بدھ کو ایک صحافی پر مسلح افراد کے حملے اور اُنھیں اغوا کرنے کی کوشش کے معاملے کی تحقیقات کی جارہی ہیں۔

طحٰہ صدیقی ’فرانس 24‘ اور بھارتی نشریاتی ادارے 'ورلڈ از ون نیوز' سے وابستہ ہیں۔

طحٰہ صدیقی نے اپنے ایک ساتھی صحافی کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر بدھ کی صبح بتایا کہ وہ ہوائی اڈے کی طرف جا رہے تھے کہ 8 بج کر 20 منٹ پر 10 سے 12 مسلح افراد نے ان کی ٹیکسی کو روکا اور زبردستی اُنھیں اغوا کرنے کی کوشش کی۔

اطلاعات کے مطابق واقعے کے دوران طحٰہ صدیقی کا سامان بھی اُن سے چھین لیا گیا۔

وفاقی دارالحکومت کے کورال تھانے کے ایک تفتیشی افسر نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ اب تک سامنے آنے والی معلومات کی بنیاد پر رپورٹ درج کر کے تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔

اپنی ٹوئٹر پوسٹ میں طحٰہ صدیقی نے کہا ہے کہ وہ بچ نکلنے میں کامیاب رہے۔ انہوں نے اپنی ٹوئٹ کے آخر میں ہیش ٹیگ کے ساتھ لکھا "جبری گمشدگیاں بند کرو۔"

واضح رہے کہ سوشل میڈیا پر بعض پیغامات پوسٹ کرنے پر طحٰہ صدیقی کو گزشتہ سال کے وسط میں وفاقی تحقیقاتی ادارے نے تفتیش کے لیے بلایا تھا۔

جب کہ طحٰہ صدیقی نے الزام لگایا تھا کہ اُنھیں وفاقی تحقیقاتی ادارے ’ایف آئی اے‘ کی طرف سے ٹیلی فون پر ہراساں بھی کیا گیا تھا۔ اُنھوں نے اس واقعے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک پٹیشن بھی دائر کی تھی۔

طحٰہ کا کہنا تھا کہ اُنھیں جس شخص نے ٹیلی فون کیا تھا اُس نے کہا تھا کہ وہ ایف آئی اے کے انسدادِ دہشت گردی کے محکمے سے وابستہ ہے اور اس نے اُنھیں فوری طور پر وفاقی تحقیقاتی ادارے کے دفتر میں رپورٹ کرنے کا کہا تھا۔

بعد ازاں اسلام ہائی کورٹ نے طحٰہ کی درخواست کی سماعت کرتے ہوئے ایف آئی اے سے کہا تھا کہ صحافیوں کو ہراساں کرنے سے گریز کیا جائے۔

راولپنڈی اسلام یونین آف جرنلسٹس کے صدر مبارک زیب نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں طحٰہ صدیقی پر حملے کی شدید مذمت کی ہے۔

’’اس کی جتنی بھی ہم مذمت کریں بہت کم ہے۔ دن دیہاڑے آ کر ..... اور وہ بھی فیڈرل کیپیٹل میں (حملہ) ہم نہیں سمجھتے ہیں کہ یہ چھوٹا واقعہ ہے۔۔۔ پچھلے دو تین مہینوں سے صحافیوں کے خلاف ایسے واقعات بڑھ گئے ہیں۔ ہمیں خاصی تشویش ہے۔۔۔۔ ہم پریشان بھی ہیں اور حکام سے رابطے میں ہیں کہ وہ اس حوالے سے جو اقدامات ہیں وہ کر لیں۔ ‘‘

اُدھر انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی صحافی طحٰہ صدیقی پر حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے حکام سے اس معاملے کی فوری اور موثر تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

ایمنٹسی کی طرف سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ طحٰہ جیسے صحافیوں کو بلا خوف خطر اپنا کام کرنے کا حق ہونا چاہیے۔ بیان کے مطابق صحافت جرم نہیں ہے بلکہ صحافیوں پر حملہ کرنا جرم ہے۔

پاکستان کا شمار صحافیوں کے لیے خطرناک تصور کیے جانے والے ممالک میں ہوتا ہے۔ صحافیوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی مقامی اور بین الاقوامی تنظمیوں کی طرف سے کہا جاتا رہا ہے کہ ملک میں صحافیوں کو مختلف حلقوں کی طرف سے دھمکیوں اور دباؤ کا سامنا رہتا ہے۔

XS
SM
MD
LG