رسائی کے لنکس

پاکستانی صحافیوں کی مشکلات


Senator John Kerry emerges after a unanimous vote by the Senate Foreign Relations Committee approving him to become America's next top diplomat, January 29, 2013.
Senator John Kerry emerges after a unanimous vote by the Senate Foreign Relations Committee approving him to become America's next top diplomat, January 29, 2013.

آزادی صحافت کے لیے کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کے مطابق پاکستان صحافیوں کے لیے دنیا کا چوتھا خطرناک ترین ملک ہے جہاں اس سال بھی اب تک تشدد کے مختلف واقعات میں پانچ صحافی ہلاک ہوچکے ہیں۔

ان میں تازہ ترین واقعہ گزشتہ ہفتے اُس وقت پیش آیا جب نامعلوم افراد نے بلوچستان کے دور دراز علاقے خضدار کے پریس کلب کے نائب صدر فیض الدین ساسولی کو قتل کردیا ۔ اس واقعے پر مقامی اور بین الاقوامی تنظیمیں سراپا احتجاج ہیں اور حکام سے اس کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کر رہی ہیں۔

وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں صوبائی سیکرٹری داخلہ اکبر درانی نے کہا ہے کہ ان کی معلومات کے مطابق فیض محمد خان ساسولی کو بلوچ عسکریت پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی نے سرکاری مخبر ہونے کے الزام میں ہلاک کرنے کی ذمہ داری قبول کی ہے تاہم ان کا کہنا تھا کہ واقعہ کی تحقیقات کے بعد وہ اس بارے میں کوئی حتمی بیان دے سکیں گے۔

صحافی کے قتل کا یہ تازہ واقعہ پاکستان میں اس شعبے سے وابستہ افراد کو روایتی طور پر درپیش خطرات کی غمازی کر تا ہے جن میں ر یاستی دباؤ،دہشت گردوں کی طرف سے دھمکیاں، اغواء اور بااثر افراد کی طرف سے انھیں تشدد کا نشانہ بنانے کے واقعات شامل ہیں۔ لیکن سلامتی کے خطرات کا سامنا کرنے والی صحافتی برادری کو ان دنوں ایک اور کڑے چیلنج کا سامنا ہے ۔ گذشتہ دوسالوں کے دوران سینکڑوں صحافیوں کو اخباروں اور نجی ٹی وی چینلوں سے متواتر نوکریوں سے نکالا جا رہا ہے اور یہ اقدامات ایک ایسے وقت اٹھائے جار ہے ہیں جب پاکستان مشکل اقتصادی صورت حال سے دوچار ہے۔

گذشتہ دہائی کے دوران پاکستان میں درجنوں ٹی وی چینلوں اور اخباروں کا منظر عام پر آنا صحافیوں کی اکثریتی طور پر غیر مراعات یافتہ برادری کے لیے بہتر مستقبل کی نوید تھا لیکن اب بڑے سے بڑے چینل اور چھوٹے سے چھوٹے اخبار سے بڑی تعداد میں فارغ ہونے کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندے شدید پریشانی اور اضطراب سے دوچار ہیں۔ پریشان کن امر یہ کہ حکومت اور نہ ہی اخبار مالکان اس صورتحال کی ذمے داری لینے کے لیے تیار ہیں۔

انسانی حقوق کے وفاقی وزیر ممتاز عالم گیلانی نے رابطہ کرنے پر کہا کہ حکومت صحافیوں کے حقوق کے تحفظ اور ان کے استحصال کو روکنے کے لیے تمام ممکن اقدامات کرنے کو تیار ہے بشرطیکہ صحافیوں کی نمائندہ تنظیمیں بھی ان مالکان کے خلاف سرگرم ہوں جو اپنے کارکنوں کے ساتھ مبینہ ناانصافی کررہے ہیں۔

پاکستانی صحافیوں کی مشکلات
پاکستانی صحافیوں کی مشکلات

ادھر پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے سربراہ پرویز شوکت الزام عائد کرتے ہیں کہ چینل اور اخبار مالکان تاریخی طور پر حکومتوں کو اپنے اثرورسوخ سے ”بلیک میل“کرتے آئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ حکومت نے صحافیوں کے احتجاج کے باوجود ان کے خلاف کارروائی نہیں کی۔

اخبار اور چینل مالکان کی نمائندہ تنظیم اے پی این ایس کے نائب صدر عمر مجیب اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ صحافیوں کانوکریوں سے برخواست کیا جانا ایک پریشان کن امر ہے لیکن ان کا مئوقف ہے کہ ”گذشتہ سالوں کے دوران اقتصادی تنزلی اور اشتہارات میں کمی کی وجہ سے کئی اخبارات اور چینلوں کی اپنی مالی صحت انحطاط کا شکار ہے جس کے باعث وہ زیادہ کارکنوں کا بوجھ نہیں اٹھا پارہے“۔

XS
SM
MD
LG