رسائی کے لنکس

پاکستان میں صحافیوں کو اب بھی خطرات کا سامنا ہے: پی ایف یو جے


فائل فوٹو
فائل فوٹو

عدم تحفط کے علاوہ پاکستانی صحافیوں کو معاشی مسائل کا بھی سامنا ہے۔ رانا عظیم نے بتایا کہ ملک میں سوائے چند اداروں کے صحافیوں کو وقت پر تنخواہیں نہیں ادا کی جاتی۔

دو نومبر کو دنیا بھر میں صحافیوں کے خلاف جرائم میں سزا سے استثنیٰ کے خاتمے کا دن منایا جاتا ہے۔ پاکستان بھی ان ممالک میں شامل ہے جہاں صحافیوں کو خطرات کا سامنا ہے۔

صحافی کا کردار معاشرے اور اس میں ہونے والے واقعات پر گہری نظر رکھنا اور ان کی خبریں عوام تک پہنچانا ہے، تاہم پاکستان کے مخصوص حالات کے باعث مکمل ایمانداری اور غیر جانبداری سے یہ کام سرانجام دینا انتہائی مشکل ہے، خاص طور پر اُن علاقوں میں جو شورش کی زد میں ہیں۔

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر رانا عظیم نے بھی وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ملک کے مختلف حصوں میں جاری شورش کے باعث صحافیوں کو شدت پسند تنظیموں اور سکیورٹی فورسز دونوں جانب سے دھمکیوں کا سامنا رہتا ہے۔

اُن کے بقول اب تک جیو ٹی وی کے صحافی ولی خان بابر کے قتل کے مجرموں کے سوا کسی صحافی کے قاتل کو قانون کے کٹہرے میں نہیں لایا جا سکا۔

نیو یارک میں قائم صحافیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس‘ نے کہا ہے پاکستان میں 1992 سے اب تک 81 صحافی اور اس شعبے سے وابستہ دیگر افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ تنظیم کے مطابق ان میں 56 ایسے تھے جنہیں ان کے کام کی وجہ سے قتل کیا گیا۔ تاہم صحافیوں کی مقامی تنظیموں کا کہنا ہے کہ یہ تعداد اس سے بہت زیادہ ہے۔

کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس نے گزشتہ ماہ سال 2015 کے لیے صحافیوں کے خلاف جرائم میں سزا سے استثنیٰ کی عالمی فہرست جاری کی تھی جس میں پاکستان کا نام نویں نمبر پر تھا۔

کمیٹی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں صحافیوں پر حملے مسلسل جاری ہیں اور گزشتہ ایک سال کے دوران پاکستان میں تین صحافی ہلاک ہو چکے ہیں۔

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے رانا عظیم نے کہا کہ پاکستان بھر میں 18 ہزار سے زائد صحافی کام کرتے ہیں اور ان سب کو حکومت کی طرف سے سکیورٹی فراہم کرنا ممکن نہیں۔

’’ہر اس کارکن کو سکیورٹی چاہیئے جو فیلڈ میں کام کرتا ہے۔ تو اس کے لیے بہترین حل ہے کہ بجائے آپ ہمیں سکیورٹی دیں آپ پاکستان میں ان تمام چیزوں کو ختم کرنے کی کوشش کریں جو پاکستان میں آزادی صحافت کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرنے کا باعث بن رہی ہیں، چاہے وہ طالبان ہوں، داعش ہو، سرکاری افسران ہوں یا خفیہ ایجنسیاں ہوں، کوئی بھی ہو۔‘‘

عدم تحفط کے علاوہ پاکستانی صحافیوں کو معاشی مسائل کا بھی سامنا ہے۔ رانا عظیم نے بتایا کہ ملک میں سوائے چند اداروں کے صحافیوں کو وقت پر تنخواہیں نہیں ادا کی جاتی۔ ایسے اداروں میں نہ تو صحافیوں کی ملازمتوں کو تحفظ حاصل ہے اور نہ ہی انہیں صحت کی یا دیگر سہولتیں مہیا کی جاتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کئی اخبار اور چینل سرکاری اشہتارات اور دیگر سہولتوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں مگر اپنے ملازموں کو تنخواہیں نہیں ادا کرتے۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ تمام اخبارات اور ٹی وی چینلز کو دیے جانے والے سرکاری اشتہارات کو ان کے ملازمیں کی تنخواہوں کی ادائیگی سے مشروط کرے۔

پاکستان کے وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید کا مؤقف ہے کہ حکومت نے صحافیوں اور اس شعبے سے وابستہ دیگر افراد کی تحفظ کے لیے متعدد اقدام کیے ہیں اور ان کی تنخواہوں کی ادائیگی کا مسئلہ حل کرنے کے لیے بھی کوششیں کر رہی ہے۔

حکومت کا موقف ہے کہ گزشتہ ایک دہائی کے دوران بدترین دہشت گردی نے ملک میں آباد تمام ہی حلقوں بشمول صحافیوں کو بری طرح متاثر کیا۔ تاہم اب جب کہ امن و امان کی صورت حال میں بہتری آ رہی ہے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ صحافیوں کو لاحق خطرات بھی کم ہو رہے ہیں۔

XS
SM
MD
LG