رسائی کے لنکس

قبائلی علاقوں میں متعارف کرائے گئے قانون کا دفاع


قبائلی علاقوں میں متعارف کرائے گئے قانون کا دفاع
قبائلی علاقوں میں متعارف کرائے گئے قانون کا دفاع

وفاق اور صوبوں کے زیر انتظام قبائلی علاقوں میں مبینہ دہشت گردوں اور ان کے حامیوں کے خلاف قانونی کارروائی کی راہ ہموار کرنے کے لیے صدر آصف علی زرداری نے جون کے اواخر میں ”ایکشن ان ایڈ آف سول پاور“ آرڈیننس کا اجرا کیا تھا۔ تاہم کئی ہفتے گزرنے کے بعد بھی تاحال اس قانون کی تفصیلات باضابطہ طور پر جاری نہیں کی گئی ہیں۔

پاکستان کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ شورش زدہ قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کی حوصلہ شکنی کے لیے متعارف کرائے گئے نئے قانون میں بہتری کے لیے حکومت اراکین پارلیمان کی تجاویز سے استفادہ حاصل کرے گی۔

بدھ کو اسلام آباد میں قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب میں وزیر اعظم گیلانی نے ”ایکشن اِن ایڈ آف سول پاور“ کے نام سے منسوب صدارتی آرڈیننس کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اس کا اجرا وفاق اور صوبوں کے زیر انتظام قبائلی علاقوں فاٹا اور پاٹا میں عسکریت پسندوں کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں کی روک تھام کے لیے ناگزیر تھا۔

اُنھوں نے کہا کہ وہ صدارتی حکم نامے کے بارے میں قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے قانون سازوں کو اعتماد میں لینا چاہتے ہیں۔ ”فاٹا کے اراکین قومی اسمبلی اور سینیٹ کا یہ حق بنتا ہے کہ وہ اس (قانون) پر بات کریں اور ہم ان کا احترام کرتے ہیں۔ میں نے دعوت دی ہے فاٹا کے اراکین قومی اسمبلی کو کہ میرے ساتھ بات کریں اور جو ترامیم یہ تجویز کرتے ہیں تو ان کو انشا الله ہم ضرور شامل کریں گے۔“

وفاق اور صوبوں کے زیر انتظام قبائلی علاقوں میں مبینہ دہشت گردوں اور ان کے حامیوں کے خلاف قانونی کارروائی کی راہ ہموار کرنے کے لیے صدر آصف علی زرداری نے جون کے اواخر میں ”ایکشن ان ایڈ آف سول پاور“ آرڈیننس کا اجرا کیا تھا۔ تاہم کئی ہفتے گزرنے کے بعد بھی تاحال اس قانون کی تفصیلات باضابطہ طور پر جاری نہیں کی گئی ہیں۔

قبائلی علاقوں اور بعض سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے اراکین پارلیمان صدارتی حکم نامے کی ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی تفصیلات کی بنیاد پر اس کی سخت مخالفت کر رہے ہیں کیوں کہ اُن کے خیال میں اس قانون کی بدولت سکیورٹی فورسز کو حاصل ہونے والے لامحدود اختیارات مقامی آبادی کے بنیادی حقوق کے لیے بڑا خطرہ ہیں۔

قبائلی علاقوں میں متعارف کرائے گئے قانون کا دفاع
قبائلی علاقوں میں متعارف کرائے گئے قانون کا دفاع

صدراتی آرڈیننس کے تحت سکیورٹی فورسز کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ امن و امان کے لیے خطرہ سمجھے جانے والے کسی بھی شخص پر مقدمہ قائم کیے بغیر اس کو 120 روز تک اپنی حراست میں رکھ سکتی ہیں اور فوجی اہلکاروں کے بیان کو مبینہ ملزم کے خلاف مستند ثبوت تصور کیا جائے گا۔

اطلاعات کے مطابق اس قانون کے نفاذ کے بعد سکیورٹی فورسز دہشت گردی کے ملزم کو عمر قید، حتیٰ کہ موت کی سزا سنانے کی بھی مجاز ہوں گی، جب کہ فیصلے کے خلاف کسی اپیل کا جائزہ بھی فوجی حکام ہی لیں گے۔

پاکستانی آئین کے تحت صدارتی آرڈیننس کا اطلاق تین ماہ تک ہوتا ہے جس کے دوران اگر پارلیمان اس کی منظوری نا دے تو متعلقہ آرڈیننس غیر فعال ہو جاتا ہے۔ تاہم ماضی میں مختلف قوانین کے نافذالعمل ہونے کی مدت میں اضافے کے لیے صدر کی جانب سے ان کا دوبارہ اجرا کیا جاتا رہا ہے۔

XS
SM
MD
LG