پاکستان کے شمال مغربی صوبے خیبر پختون خواہ میں شدت پسندوں کی پرتشدد کارروائیوں میں ایک مرتبہ پھر اضافہ ہو گیا ہے اور حکام کے بقول اس کی ایک وجہ زیر حراست مشتبہ شدت پسندوں کے خلاف موثر عدالتی کارروائی کا نا ہونا ہے۔
وزیر اطلاعات میاں افتخار حسین نے جمعرات کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ عدالتیں ملزمان کے خلاف ٹھوس شواہد کی فراہمی کا مطالبہ کرتی ہیں اور بیشتر مقدمات میں مشتبہ افراد کو ناکافی ثبوت کی بنیاد پر بری کر دیا جاتا ہے۔
صوبائی وزیر کے بقول عسکریت پسندوں سے رابطوں کے الزام میں گرفتار کیے جانے والے 98 فیصد افراد عدالت کے ذریعے رہائی حاصل کر لیتے ہیں اور محض دو فیصد کو ہی سزاوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس سے شدت پسندوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔
حکام کے مطابق شدت پسندوں کے خلاف عدالت میں ٹھوس ثبوت پیش کرنا سکیورٹی فورسز کے لیے ایک مشکل کام ہوتا ہے۔
میاں افتخار حسین کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں سکیورٹی فورسز نے صوبے بھر سے 5,000 سے زائد مشتبہ عسکریت پسندوں کو گرفتار کیا ہے جن کے خلاف مختلف عدالتوں میں مقدمات کی سماعت جاری ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ حکومت اور سکیورٹی فورسز نے موثر سیاسی و فوجی حکمت عملی کے ذریعے شدت پسندی پر خاصی حد تک قابو پا لیا ہے اور اگر عدالتیں ملزمان کو کڑی سزائیں سنائیں تو اس مسئلے پر مکمل قابو پایا جاسکتا ہے۔ اُن کے بقول عوام اس بات پر متفق ہے کہ عسکریت پسندوں کو موت کی سزا ملنی چاہیئے۔
2009ء میں وادی سوات اور اس سے ملحقہ علاقوں میں شدت پسندوں کے خلاف بھرپور فوجی کارروائی کے بعد صوبے میں امن و امان کی صورت حال میں نمایاں بہتری آئی تھی۔
یہ بھی پڑھیے
مقبول ترین
1