عدالت عظمی نے قومی مصالحتی آرڈیننس یا ’این آر او‘ کو کالعدم قرار دیئے جانے کے اپنے فیصلے پر عمل درآمد میں تاخیر پر حکومت سے وضاحت طلب کر لی ہے۔
سپریم کورٹ نے بدھ کو صدرآصف علی زداری، وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور چاروں صوبائی گورنروں کو نوٹس جاری کیے ہیں جن سے این آر او کے بارے میں عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر اب تک عمل درآمد نا ہونے کی وضاحت طلب کی گئی۔ صدر اور وزیر اعظم کے جوابات اُن کے پرنسپل سیکرٹریز جمع کروا سکیں گے۔
مزید برآں قومی احتساب بیورو کے سربراہ فصیح بخاری کو بھی ہدایت کی گئی ہے کہ وہ عدالت کے سامنے پیش ہو کر وضاحت کریں کہ این آر او سے مستفید ہونے والوں کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات اب تک بحال کیوں نہیں کیے گئے۔
سپریم کورٹ کے 17 رکنی لارجر بینچ نے 16 دسمبر 2009ء کو ایک متفقہ فیصلے میں آین آر او نامی صدارتی حکم نامے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے اس سے مستفید ہونے والے ہزاروں افراد بشمول صدر آصف علی زرداری کے خلاف اندرون ملک اور پاکستان سے باہر ختم کیے گئے مقدمات بحال کرنے کا حکم دیا تھا۔
پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت نے اس فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی درخواست بھی دائر کی تھی جسے نومبر کے آخری ہفتے میں مسترد کرتے ہوئے حکومت سے کہا گیا تھا کہ وہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر مِن و عن عمل درآمد کو یقینی بنائے۔
لیکن وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی حکومت اس فیصلے پر عمل درآمد کرنے سے گریزاں ہے اور تاحال سوئٹززلینڈ میں صدر زرداری کے خلاف قائم بدعنوانی کے مقدمات کو دوبارہ کھولنے کے لیے عدالت عظمیٰ کی ہدایت کے باوجود کوئی خط نہیں لکھا گیا ہے اور اس دانستہ تاخیر کی بنیادی وجہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین کے خلاف کسی بھی طرح کی عدالتی کارروائی کو روکنا ہے۔
حکومت کے قانونی مشیر روز اول سے یہ موقف اختیار کیے ہوئے ہیں کہ آئین کے آرٹیکل 248 کے تحت کے صدر مملکت کو کسی بھی طرح کی عدالتی کارروائی سے استثنیٰ حاصل ہے۔
ادھر بدھ کے روز سپریم کورٹ نے سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی کی وہ درخواست سماعت کے لیے منظور کر لی ہے جس میں عدالت سے کہا گیا ہے کہ ممیو گیٹ اسکینڈل کے بارے میں مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف کی دائر کردہ درخواست قابل سماعت نہیں ہے اس لیے معزز عدالت اسے خارج کر دے۔
اس درخواست میں حسین حقانی نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ عدالت عظمیٰ نے ان کا نقطہ نظر سنے بغیر ان پر ملک سے باہر جانے کی پابندی لگائی ہے جو بنیادی حقوق سے متعلق آئین کی شق کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔
مزیر برآں انھوں نے اپنی درخواست میں کہا کہ اس حقیقت سے سب لوگ آگاہ ہیں کہ اپنے دور حکومت میں نواز شریف نے ان کے خلاف جعلی الزامات کی بنیاد پر مقدمات قائم کر کے اُنھیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا تھا اور عدالت عظمیٰ میں ان کی دائر کردہ حالیہ درخواست اسی سلسلے کی کڑی ہو سکتی ہے۔
یکم دسمبر کو میمو گیٹ اسکینڈل کی تحقیقات کے لیے دائر آئینی درخواستوں کی ابتدائی سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے اس میں نامزد فریقیں کو 15 دن کے اندر اپنے تحریری جوابات داخل کرنے کا حکم دیا تھا۔ نواز شریف نے اپنی درخواست میں حسین حقانی کے علاوہ صدر زرداری، وفاق، آرمی چیف اور آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل کو بھی فریق بنایا ہے۔
اُنھوں نے اپنی درخواست میں سپریم کورٹ سے استدعا بھی کر رکھی ہے کہ وہ پاکستانی نژاد امریکی شہری منصور اعجاز کو بھی طلب کر کے اس کا موقف سنے۔ اس امریکی کاروباری شخصیت نے اپنے ایک اخباری مضمون کے ذریعے سب سے پہلے یہ انکشاف کیا تھا کہ واشنگٹن میں پاکستانی سفیر حسین حقانی کے کہنے پر اُنھوں نے امریکی حکام کو صدر زرداری سے منسوب ایک خط یا میمو پہنچایا تھا جس میں پاکستان کی فوجی قیادت کی برطرفی کے لیے امریکہ سےمدد مانگی گئی تھی۔