لاہور کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنزجج یوسف اوجھلا نے دوہرے قتل کے الزام میں زیر حراست امریکی محکمہ خارجہ کے اہلکار کے خلاف عدالتی کارروائی 8 مارچ تک ملتوی کر دی ہے۔
جمعرات کے روز ریمنڈ ایلن ڈیوس کے وکیل زاہد بخاری نے عدالت کو بتایا کہ استغاثہ نے اُن کے موکل کو پولیس چالان کی انگریزی زبان میں نقول فراہم نہیں کی ہیں۔ وکیل صفائی کی اس استدعا پر جج نے امریکی اہلکار کو مطلوبہ دستاویز فراہم کرنے کا حکم دیا ہے۔
امریکہ کا اصرار ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کو سفارتی استثنا حاصل ہے اور پاکستان کو اُسے فی الفور رہا کر دینا چاہیئے۔ واشنگٹن کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکی محکمہ خارجہ کے اس اہلکار نے دونوں پاکستانیوں پر گولیاں اپنے دفاع میں چلائی تھیں۔
ریمنڈ ڈیوس کے بقول اس کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والے دونوں افراد اس کو لوٹنا چاہتے تھے۔
زاہد بخاری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ اُنھوں نے جمعرات کو عدالتی کارروائی پر حکم امتناع کی درخواست کی اور یہ موقف اختیار کیا کہ ریمنڈ ڈیوس کے سفارتی استثنا کا معاملہ ابھی زیرغور ہے۔
تاہم جج نے وکیل صفائی کی درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اگر دوران سماعت امریکی اہلکار کو سفارتی استثنا کا حقدار قرار دے دیا جاتا ہے تو اس کے خلاف عدالتی کارروائی فوری طور پر روک دی جائے گی۔
سکیورٹی خدشات کے پیش نظر ریمنڈ ڈیوس کي خلاف الزامات کی سماعت لاہور کی کوٹ لکھ پت جیل میں کی جا رہی ہے جہاں امریکی اہلکار کو جوڈیشل ریمانڈ پر رکھا گیا ہے۔
امریکی اہلکار کے سفارتی اتثنا سے متعلق دائر درخواستوں کی سماعت لاہور ہائی کورٹ کر رہی ہے جس نے حکومت کو 14 مارچ کو اس بارے میں اپنا موقف پیش کرنے کا حکم دے رکھا ہے۔
ستائیس جنوری کو لاہور میں پیش آنے والے اس واقعے کے بعد پاکستان کے عوامی حلقوں میں امریکہ مخالف جذبات میں اضافہ ہو گیا تھا اور دنوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات بھی تناؤ کا شکار ہیں۔
امریکی حکام نے نام ظاہر نا کرنے کی شرط پر مقامی ذرائع ابلاغ کو بتایا ہے کہ حراست کے وقت ریمنڈ ڈیوس امریکی خفیہ ادارے سنٹرل انٹیلی جنس ایجنسی کے لیے بطور ’سکیورٹی کانٹریکٹر‘ کام کر رہا تھا۔
پاکستانی انٹیلی جنس حکام کے مطابق امریکی اہلکار کی گرفتاری کے دونوں ملکوں کے خفیہ اداروں کے درمیان تعلقات پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔