امریکی سیاسی رہنماؤں کا اصرار ہے کہ پاکستان میں دو افراد کے قتل کے الزام میں گرفتارریمنڈ ڈیوس سفارتکار ہے اور اُنھیں سفارتی استثنیٰ کے تحت رہا کیا جانا چاہیئے، جب کہ پاکستان کے سیاسی راہنما بشمول وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور حزبِ اختلاف کے قائد میاں نواز شریف، اِس مؤقف پر قائم ہیں کہ معاملہ عدالت میں ہے اور وہی اِس کا فیصلہ کرے گی۔
کیا اِس معاملے کو عدالت میں جانا چاہیئے تھا؟ اِس معاملے کی دونوں ملکوں کے سیاسی، معاشی اور دفاعی تعلقات پر کیا اثرات ہو سکتے ہیں، اِس بارے میں سفارتی امور کے ماہر سابق سفیر ظفر ہلالی ، سیاسی امور کے ماہر پروفیسر ڈاکٹر اعجازخان اور امریکہ میں مقیم پاک پیک کے رکن ظفرطاہرنےوائس آف امریکہ سے گفتگو میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
ظفر ہلالی کا کہنا تھا کہ ریمنڈ ڈیوس کا معاملہ عدالت میں جانے سے پہلے حل کر لیا جانا چاہیئے تھا۔ اُنھوں نے کہا کہ امریکی صدر براک اوباما کی جانب سے اِس مسئلے پر بیانات کے بعد اس کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ حقائق اور قانون کی بجائے اب اِس معاملے کو مصالحتی سمجھوتے کے ذریعے حل کیا جانا چاہیئے، جس کے لیے مقتولین کے ورثا کو معاوضے کی ادائگی اور امریکہ میں ریمنڈ ڈیوس پر مقدمہ چلائے جانے سمیت کئی طریقے تلاش کیے جاسکتے ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر اعجاز خان نے کہا کہ پاکستان کی سیاسی قیادت جب کہتی ہے کہ فیصلہ عدالت کرے گی تو یہ، اُن کے بقول، ایک طرح کی راہِ فرار ہے۔ ‘سیاستدانوں کو مل بیٹھ کر تمام پہلوؤں کو زیرِ غور لاتے ہوئے متفقہ نتیجے پر پہنچنا چاہیئے۔ ’
پاک پیک کے ظفر طاہر نے کہا کہ ریمنڈ ڈیوس مسئلے پر امریکہ میں مقیم پاکستانیوں کو تشویش ہے۔
تفصیلات کےلیے آڈیو سنیئے: