پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور اقتصادی مرکز کراچی میں امن و امان کی خراب صورتحال اور جرائم کے بڑھتے ہوئے واقعات کے تناظر میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کارروائی کرتے ہوئے درجنوں افراد کو حراست میں لیا جن میں شہر کی بااثرسیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ سے تعلق رکھنے والےلوگ بھی شامل ہیں۔
پولیس کی اس کارروائی کو متحدہ قومی موومنٹ نے شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے جمعرات کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں صدائے احتجاج بلند کی اور پھر اسمبلی کی کارروائی کا بائیکاٹ کیا۔
ایم کیو ایم کے ایک سینیئر رکن اسمبلی فاروق ستار نے جمعرات کو اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو میں الزام عائد کیا کہ سندھ حکومت جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کی جماعت کے کارکنوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔
’’ہم نے قومی اسمبلی میں چھاپوں کی گرفتاریوں کی غیر آئینی و غیر قانونی، ماورائے آئین و قانون اس اقدام کی مذمت کی ہے ۔کوئی ایک سیاسی کارکن یا شہری ایسا گرفتار نہیں کیا گیا جس کے خلاف کوئی ایف آئی آر ہو پہلے سے وہ مطلوب ہو۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان نے انھیں یقین دلایا ہے کہ کسی بھی بے گناہ شخص کے خلاف کارروائی نہیں کی جائے گی اور ماورائے عدالت قتل، تشدد کے ذریعے اقبالی بیان کی سیاست کی اب کوئی جگہ نہیں۔
ایم کیو ایم کے رہنما فاروق ستار نے مطالبہ کیا کہ گرفتار کیے جانے والے سیاسی کارکنوں کو قانونی تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے 24 گھنٹے میں عدالت میں پیش کیا جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ان سے دباؤ یا تشدد کے ذریعے کوئی اقبالی بیان ریکارڈ نہ کرایا جاسکے۔
کراچی میں یہ گرفتاریاں اور پولیس کی کارروائیاں ایک ایسے وقت کی گئی ہیں جب ایک روز قبل وفاقی وزیرداخلہ نے کہا تھا کہ شہر کے حالات بہتر کرنے کے لیے وہاں اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری اور دیگر جرائم میں ملوث عناصر خلاف ٹارگٹڈ آپریشن کیا جائے گا لیکن ان کے بقول یہ اقدام سندھ حکومت کی مشاورت سے کیا جائے گا۔
’’میں نے وزیراعلیٰ سندھ سے کہا ہے کہ وہ ٹیم کیپٹن بنیں اور وفاقی حکومت ان کے لیے ٹیم بنائے گی جس میں قانون نافذ کرنے والے ادارے اور انٹیلی جنس ایجنسیاں بھی شامل ہوں گی، لیکن یہ میں کہنا چاہتا ہوں کہ کراچی میں ٹارگٹڈ آپریشن ہوگا پورے شہر میں اس کی ضرورت نہیں۔‘‘
متحدہ قومی موومنٹ نے رواں ہفتے کراچی میں امن و امان کی صورتحال بہتر کرنے کے لیے شہر کو فوج کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا تھا جس پر دیگر سیاسی جماعتوں کی طرف سے شدید ردعمل کا اظہار کیا گیا تھا۔
وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار نے جمعرات کو ایک بار پھر قومی اسمبلی کے اجلاس میں کہا کہ کراچی میں فوجی آپریشن کی ضرورت نہیں ہے اور ان کے بقول یہ شہر کے لیے سود مند نہیں ہو گا۔
اُن کا کہنا تھا کہ وہ آئندہ ہفتے کراچی جا کر تمام صورت حال پر صوبائی حکومت سے بات چیت کریں۔
کراچی میں بدامنی کی صورت حال پر گزشتہ روز وزیراعظم نواز شریف نے بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس معاملے پر کابینہ کا خصوصی اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔
پولیس کی اس کارروائی کو متحدہ قومی موومنٹ نے شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے جمعرات کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں صدائے احتجاج بلند کی اور پھر اسمبلی کی کارروائی کا بائیکاٹ کیا۔
ایم کیو ایم کے ایک سینیئر رکن اسمبلی فاروق ستار نے جمعرات کو اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو میں الزام عائد کیا کہ سندھ حکومت جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کی جماعت کے کارکنوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔
’’ہم نے قومی اسمبلی میں چھاپوں کی گرفتاریوں کی غیر آئینی و غیر قانونی، ماورائے آئین و قانون اس اقدام کی مذمت کی ہے ۔کوئی ایک سیاسی کارکن یا شہری ایسا گرفتار نہیں کیا گیا جس کے خلاف کوئی ایف آئی آر ہو پہلے سے وہ مطلوب ہو۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان نے انھیں یقین دلایا ہے کہ کسی بھی بے گناہ شخص کے خلاف کارروائی نہیں کی جائے گی اور ماورائے عدالت قتل، تشدد کے ذریعے اقبالی بیان کی سیاست کی اب کوئی جگہ نہیں۔
ایم کیو ایم کے رہنما فاروق ستار نے مطالبہ کیا کہ گرفتار کیے جانے والے سیاسی کارکنوں کو قانونی تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے 24 گھنٹے میں عدالت میں پیش کیا جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ان سے دباؤ یا تشدد کے ذریعے کوئی اقبالی بیان ریکارڈ نہ کرایا جاسکے۔
کراچی میں یہ گرفتاریاں اور پولیس کی کارروائیاں ایک ایسے وقت کی گئی ہیں جب ایک روز قبل وفاقی وزیرداخلہ نے کہا تھا کہ شہر کے حالات بہتر کرنے کے لیے وہاں اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری اور دیگر جرائم میں ملوث عناصر خلاف ٹارگٹڈ آپریشن کیا جائے گا لیکن ان کے بقول یہ اقدام سندھ حکومت کی مشاورت سے کیا جائے گا۔
’’میں نے وزیراعلیٰ سندھ سے کہا ہے کہ وہ ٹیم کیپٹن بنیں اور وفاقی حکومت ان کے لیے ٹیم بنائے گی جس میں قانون نافذ کرنے والے ادارے اور انٹیلی جنس ایجنسیاں بھی شامل ہوں گی، لیکن یہ میں کہنا چاہتا ہوں کہ کراچی میں ٹارگٹڈ آپریشن ہوگا پورے شہر میں اس کی ضرورت نہیں۔‘‘
متحدہ قومی موومنٹ نے رواں ہفتے کراچی میں امن و امان کی صورتحال بہتر کرنے کے لیے شہر کو فوج کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا تھا جس پر دیگر سیاسی جماعتوں کی طرف سے شدید ردعمل کا اظہار کیا گیا تھا۔
وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار نے جمعرات کو ایک بار پھر قومی اسمبلی کے اجلاس میں کہا کہ کراچی میں فوجی آپریشن کی ضرورت نہیں ہے اور ان کے بقول یہ شہر کے لیے سود مند نہیں ہو گا۔
اُن کا کہنا تھا کہ وہ آئندہ ہفتے کراچی جا کر تمام صورت حال پر صوبائی حکومت سے بات چیت کریں۔
کراچی میں بدامنی کی صورت حال پر گزشتہ روز وزیراعظم نواز شریف نے بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس معاملے پر کابینہ کا خصوصی اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔