رسائی کے لنکس

نقیب اللہ قتل کیس: راؤ انوار سمیت دیگر ملزمان پر فرد جرم عائد


راو انوار (فائل فوٹو)
راو انوار (فائل فوٹو)

کراچی میں قتل ہونے والے قبائلی نوجوان نقیب اللہ کیس میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار سمیت تمام ملزمان پر فرد جرم عائد کر دی گئی ہے۔ ملزمان کے فرد جرم سے انکار کرنے پر عدالت نے آئندہ سماعت پر گواہوں کو طلب کر لیا ہے۔

انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں مقدمے کی سماعت کے دوران کیس کے مرکزی ملزم راؤ انوار سمیت دیگر ملزمان عدالت میں پیش ہوئے۔ عدالت نے ملزمان کے خلاف فرد جرم پڑھ کر سنائی لیکن تمام ملزمان نے صحت جرم سے انکار کیا۔

ملزمان کے انکار پر عدالت نے 11 اپریل کو سرکاری وکیل کو کیس میں گواہ پیش کرنے کا حکم دے دیا ہے۔

اس مقدمے میں خصوصی عدالت نے نامزد ملزمان پر تقریباً 14 ماہ کے بعد فرد جرم عائد کی گئی ہے۔

سابق ایس ایس پی راؤ انوار اور ان کے ساتھیوں پر قتل، اغوا، دھماکہ خیز مواد رکھنے اور غیر قانونی اسلحہ رکھنے کے الزامات کے تحت مقدمہ درج ہے۔

جنوری 2018ء میں پولیس پارٹی نے کراچی کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن میں ایک پولیس مقابلے میں نقیب اللہ محسود سمیت 4 ملزمان کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا تھا۔

سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے ملزمان کو کالعدم جماعت کے اہم کارندے قرار دیا تھا لیکن بعد میں ہونے والی تفتیش کے بعد یہ بات سامنے آئی تھی کہ یہ ایک جعلی پولیس مقابلہ ہے۔

واقعے پر سوشل میڈیا پر بھی بے حد تنقید کی گئی جس کے بعد سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی اس پر از خود نوٹس لیا تھا جب کہ اس کا مقدمہ پولیس پارٹی کے خلاف انسداد دہشت گردی قوانین کے تحت درج کیا گیا تھا۔

شروع میں مرکزی ملزم اور سندھ پولیس کے سابق ایس ایس پی راؤ انوار تین ماہ تک مفرور رہے تھے۔ تاہم مارچ میں راؤ انوار نے خود کو قانون کے حوالے کر دیا جس کے بعد راؤ انوار سمیت تمام ملزمان کو انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش کیا گیا۔

نقیب اللہ محسود کے والد محمد خان محسود کے وکیل صلاح الدین پنہور ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ کیس میں تحقیقات سست روی کا شکار ہے اور اس کی ذمہ داری سرکاری وکلاء اور تفتیشی افسر کے عدم تعاون پر عائد ہوتی ہے۔

کیس میں اب بھی سات ملزمان مفرور اور پولیس کی پہنچ سے دور ہیں۔ جب کہ پانچ ملزمان ضمانت پر ہیں جن میں کیس کے مرکزی ملزم سابق ایس ایس پی راؤ انوار بھی شامل ہیں۔ کیس میں صرف چار ایسے ملزمان ہیں جو گرفتار اور جیل میں قید ہیں۔

پاکستانی قوانین کے مطابق انسداد دہشت گردی کی عدالت کو سات روز میں فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ لیکن تفتیشی نظام کی کمزوری، شواہد کی تلاش، پولیس کے غیر پیشہ ورانہ رویے، مقدمات کی بھرمار کے باعث یہ قانون صرف کتابوں تک ہی محدود ہے۔

XS
SM
MD
LG