پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف نے ایک بار پھر ملک سے دہشت گردی کے مکمل خاتمے تک چین سے نہ بیٹھنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔
منگل کو اسلام آباد میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی سرزمین سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے تمام ضروری اقدامات کیے گئے ہیں اور اس معاشرے میں دہشت گردی اور دہشت گرد کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
ایک سرکاری بیان کے مطابق ملک سے انسداد دہشت گردی کے لیے مرتب کردہ قومی لائحہ عمل پر پیش رفت کا جائزہ لینے کے لیے ہونے والے اجلاس میں وزیراعظم کا کہنا تھا کہ وہ خود اس عمل کی نگرانی کر رہے ہیں۔
اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان سے بھی کہا جائے کہ وہ آئین کی 21 ویں ترمیم اور آرمی ایکٹ میں ترمیم کے تحت اپنےعلاقوں میں فوجی عدالتیں قائم کرنے کے اقدامات کریں۔
گزشتہ ہفتے پاکستان کے آئین اور فوجی ایکٹ میں ترمیم کر کے دہشت گردی کے مقدمات کی سماعت کے لیے فوجی افسروں کی سربراہی میں خصوصی عدالتوں کے قیام کا فیصلہ کیا گیا تھا تاکہ دہشت گردی کے مقدمات کو جلد نمٹایا جاسکے اور ان عدالتوں کی کارروائی کو قانونی تحفظ فراہم کیا جاسکے۔
اجلاس میں وفاقی وزیرداخلہ سمیت دیگرمتعلقہ اعلیٰ عہدیداران بھی شریک تھے جنہوں نے وزیراعظم کو بتایا کہ گزشتہ ماہ سے پنجاب اور اسلام آباد میں نفرت انگیز مواد اور تقاریر کے 164 کیسز درج کیے گئے اور 157 افراد کو حراست میں لیا گیا جب کہ ایسا مواد شائع کرنے والے 40 چھاپہ خانوں (پرنٹنگ پریس) کو سربہمر کر دیا گیا۔
اسی طرح لاؤڈ اسپیکر کے غلط استعمال پر 1994 کیسز درج کے 1088 افراد کو حراست میں لیا گیا۔
سرکاری بیان کے مطابق پنجاب کے علاوہ دیگر صوبوں سے اس ضمن میں معلومات تاحال موصول نہیں ہوئیں۔
16 دسمبر کو پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر ہوئے دہشت گرد حملے کے بعد حکومت نے تمام پارلیمانی سیاسی جماعتوں اور فوج قیادت کی مشاورت سے ملک سے انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ایک 20 نکاتی متفقہ قومی لائحہ عمل ترتیب دیا تھا۔