مظفر آباد —
پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں شعبہ صحت کی عمومی صورتحال کچھ اتنی حوصلہ افزا نہیں لیکن دانتوں کی صحت سے متعلق یہ صورتحال خاصی غیر تسلی بخش ہے۔
لوگوں میں دانتوں کی صحت سے متعلق آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے مختلف بیماریاں عام ہیں جب کہ ان امراض کا علاج کرنے کے لیے معالجین کی تعداد بھی پاکستان کے دیگر علاقوں کی نسبت تشویشناک حد تک کم ہے۔
محکمہ صحت عامہ کے مطابق چالیس لاکھ آبادی کے لیے 68 ڈینٹل سرجن یعنی کہ اٹھاون ہزار لوگوں کے لیے صرف ایک ڈینٹل سرجن دستیاب ہے۔ بین الاقوامی معیار کے مطابق کم از کم چھ ہزار کی آبادی کے لیے ایک ڈینٹل سرجن ہونا چاہیئے۔
پاکستانی کشمیر میں ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ دانتوں کی تکلیف میں مبتلا افراد اس بارے میں آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے اس کے علاج پر دھیان نہیں دیتے اور جب تکلیف حد سے بڑھتی ہے تو یہ غیر مستند معالج یا پھر زیادہ تر
’’جعلی ڈاکٹروں‘‘ سے رجوع کرتے ہیں۔
محکمہ صحت عامہ کے شعبہ ڈینٹسٹری کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر شعور احمد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ غیر مستند ڈاکٹروں سے رجوع کرنے والے اکثر لوگ مزید مختلف بیماریوں کا شکار بھی ہو جاتے ہیں۔
’’یہ لوگ صاف اوزار استعمال نہیں کرتے، دو نمبر سرنجز استعمال کرتے ہیں اگر دیکھا جائے تو زیادہ بیماریوں کے پھیلاؤ کی ایک بڑی وجہ ان عطائیوں کی وجہ سے پھیلتی ہیں۔۔ لوگوں کو آگاہی نہیں وہ جب تکلیف ہوتی ہے تو صرف دانت نکلوانے کے لیے آتے ہیں۔ علاج کی طرف کوئی دھیان نہیں دیتے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی کشمیر میں تین سو ڈینٹل ڈاکٹروں کی ضرورت ہے لیکن موجودہ صورتحال کے تناظر میں مستقبل قریب میں یہ ضرورت پوری ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔
’’پاکستان کے مختلف علاقوں میں ڈینٹل کالجز ہیں یہاں نہیں ہیں، ہر سال صرف پانچ یا چھ لڑکے ڈینٹسٹری کی تربیت حاصل کرنے جاتے ہیں، یہاں سیٹیں بڑھائی جائیں ڈینٹل کالج بھی ہونا چاہیے۔‘‘
اکتوبر 2005ء کو پاکستانی کشمیر میں آنے والے ہولناک زلزلے میں ایک سو سے زائد سرکاری اسپتال مراکز صحت تباہ ہوگئے تھے جن میں سے سو سے زائد کی تعمیر نو مکمل ہوچکی ہے اور ان میں مظفرآباد میں قائم دانتوں کا واحد اسپتال جناح ڈینٹل اسپتال بھی شامل ہے۔
یہاں گزشتہ دو سالوں میں تین سرکاری میڈیکل کالج قائم کیے گئے ہیں لیکن ان میں ڈینٹل کے شعبے نہیں ہیں۔
لوگوں میں دانتوں کی صحت سے متعلق آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے مختلف بیماریاں عام ہیں جب کہ ان امراض کا علاج کرنے کے لیے معالجین کی تعداد بھی پاکستان کے دیگر علاقوں کی نسبت تشویشناک حد تک کم ہے۔
محکمہ صحت عامہ کے مطابق چالیس لاکھ آبادی کے لیے 68 ڈینٹل سرجن یعنی کہ اٹھاون ہزار لوگوں کے لیے صرف ایک ڈینٹل سرجن دستیاب ہے۔ بین الاقوامی معیار کے مطابق کم از کم چھ ہزار کی آبادی کے لیے ایک ڈینٹل سرجن ہونا چاہیئے۔
پاکستانی کشمیر میں ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ دانتوں کی تکلیف میں مبتلا افراد اس بارے میں آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے اس کے علاج پر دھیان نہیں دیتے اور جب تکلیف حد سے بڑھتی ہے تو یہ غیر مستند معالج یا پھر زیادہ تر
’’جعلی ڈاکٹروں‘‘ سے رجوع کرتے ہیں۔
محکمہ صحت عامہ کے شعبہ ڈینٹسٹری کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر شعور احمد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ غیر مستند ڈاکٹروں سے رجوع کرنے والے اکثر لوگ مزید مختلف بیماریوں کا شکار بھی ہو جاتے ہیں۔
’’یہ لوگ صاف اوزار استعمال نہیں کرتے، دو نمبر سرنجز استعمال کرتے ہیں اگر دیکھا جائے تو زیادہ بیماریوں کے پھیلاؤ کی ایک بڑی وجہ ان عطائیوں کی وجہ سے پھیلتی ہیں۔۔ لوگوں کو آگاہی نہیں وہ جب تکلیف ہوتی ہے تو صرف دانت نکلوانے کے لیے آتے ہیں۔ علاج کی طرف کوئی دھیان نہیں دیتے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی کشمیر میں تین سو ڈینٹل ڈاکٹروں کی ضرورت ہے لیکن موجودہ صورتحال کے تناظر میں مستقبل قریب میں یہ ضرورت پوری ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔
’’پاکستان کے مختلف علاقوں میں ڈینٹل کالجز ہیں یہاں نہیں ہیں، ہر سال صرف پانچ یا چھ لڑکے ڈینٹسٹری کی تربیت حاصل کرنے جاتے ہیں، یہاں سیٹیں بڑھائی جائیں ڈینٹل کالج بھی ہونا چاہیے۔‘‘
اکتوبر 2005ء کو پاکستانی کشمیر میں آنے والے ہولناک زلزلے میں ایک سو سے زائد سرکاری اسپتال مراکز صحت تباہ ہوگئے تھے جن میں سے سو سے زائد کی تعمیر نو مکمل ہوچکی ہے اور ان میں مظفرآباد میں قائم دانتوں کا واحد اسپتال جناح ڈینٹل اسپتال بھی شامل ہے۔
یہاں گزشتہ دو سالوں میں تین سرکاری میڈیکل کالج قائم کیے گئے ہیں لیکن ان میں ڈینٹل کے شعبے نہیں ہیں۔