پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی کے تناظر میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے وزیراعظم راجہ فاروق حیدر نے متنبہ کیا ہے کہ علاقے میں صورت حال مزید پیچیدہ ہو سکتی ہے۔
اُنھوں نے پیر کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ دنیا کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جوہری صلاحیت کے حامل جنوبی ایشیا کے ملک ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑے ہیں۔
’’خدا ناخواستہ اس (کشیدگی) کے سنگین نتائج بھی ہو سکتے ہیں، اس لیے جب ہم اپنے بہن بھائیوں کی لاشیں دیکھتے ہیں تو اس سے پاکستانی کشمیر کے لوگوں کے لیے بڑا مشکل ہے اپنے آپ کو کنٹرول کرنا ۔۔۔۔ ہو سکتا ہے کل، میرے اختیار میں نہیں ہو کہ لوگ بڑی تعداد میں (لائن آف کنٹرول) کو پار کریں۔‘‘
راجہ فاروق حیدر کا کہنا تھا کہ اگر ایسا ہوا، تو اُن کے بقول صورت حال مزید بگڑ سکتی ہے۔
’’اگر وہ صورت حال پیدا ہوئی تو یہ دو ایٹمی قوتوں کے درمیان معاملہ چلا جاتا ہے۔۔۔ یہاں دو بڑی قوتیں آمنے سامنے ہیں۔۔۔۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ سنجیدہ ایشو ہے۔‘‘
راجہ فاروق حیدر نے مزید کہا کہ پاکستانی کشمیر میں ’لائن آف کنٹرول‘ کے قریب پانچ لاکھ 10 ہزار افراد مقیم ہیں اور فائرنگ و گولہ باری کی صورت میں اُن علاقوں سے لوگوں کی نقل مکانی روکنے کے لیے ان کی حکومت نے ’’کمیونٹی بنکر‘‘ بنانے کا منصوبہ بنایا ہے۔
’’پانچ لاکھ افراد ایل او سی پر بھارتی آرمی اور پاکستانی فوجیوں کے درمیان میں رہ رہے ہیں۔ ایک چھوٹی سی پٹی ہے جس کے اندر وہ رہ رہے ہیں جب بھارت فائرنگ و گولہ باری کرتا ہے تو اُن کو پیچھے لانا پڑتا ہے۔ اُن افراد کو رہائش دینے کے لیے ہمیں اپنے اسکول اور کالج بند کرنے پڑتے ہیں، کوئی چھ ارب روپے کا ایک منصوبہ ہے جس کے تحت ہم کمیونٹی بنکرز بنا رہے ہیں۔‘‘
پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر حالیہ ہفتوں میں کشیدگی میں ایک مرتبہ پھر اضافہ ہوا ہے۔
ہر بار کی طرح اس دفعہ بھی دونوں جانب سے ایک دوسرے کی سرحدی چوکیوں کو تباہ کرنے کے دعوے سامنے آئے ہیں اور ان دعووں کے ثبوت میں ویڈیوز بھی جاری کی گئی ہیں۔
امریکہ اور اقوام متحدہ کے علاوہ کئی ملکوں کی طرف سے یہ بیانات آ چکے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کشمیر سمیت دوطرفہ باہمی مسائل کا حل بات چیت کے ذریعے نکالنے کی کوشش کریں۔