پشاور —
پاکستان کے قبائلی علاقے خیبر ایجنسی میں انسداد پولیو مہم کے دوران ہونے والے بم دھماکوں میں خاصہ دار فورس کے کم ازکم 11 اہلکار اورایک بچہ ہلاک اور 11 افراد زخمی ہو گئے ہیں۔
جمرود کے گاؤں لاشوڑا میں ہفتہ کی صبح قبائلی علاقوں کی فورس ’خاصہ دار‘ کے اہلکار بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے والی ٹیموں کی حفاظت پر مامور تھے کہ ان کی گاڑی کے قریب ایک دیسی ساختہ بم دھماکا ہوا۔
دھماکے کے بعد جیسے ہی یہاں خاصہ دار اہلکاروں کی ایک اور گاڑی اور دیگر لوگ امدادی کارروائیوں کے لیے پہنچے تو یکے بعد دیگرے دو بم دھماکے ہوئے۔
دھماکوں سے خاصہ دار فورس کی گاڑیاں مکمل طور پر تباہ ہوگئیں جب کہ 11 اہلکار ہلاک ہوگئے۔ بعد ازاں واقعے میں زخمی ہونے والا ایک بچہ اسپتال میں دم توڑ گیا۔
مرنے والے خاصہ دار فورس کے دو لائن افسران بھی شامل ہیں۔
زخمی ہونے والے 11 افراد میں سے بعض کی حالت تشویشناک ہونے کی وجہ سے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔
تاحال کسی نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے لیکن شدت پسندوں کی طرف سے اس سے پہلے بھی انسداد پولیو مہم میں شامل رضا کاروں اور ان کی حفاظت پر مامور سکیورٹی اہلکاروں پر جان لیوا حملے ہوتے رہے ہیں۔
ملک کے مختلف علاقوں میں گزشتہ ایک سال سے زائد عرصے سے انسداد پولیو مہم کے رضاکاروں اور ان کی حفاظت پر مامور سکیورٹی اہلکاروں پر شدت پسندوں کی طرف سے جان لیوا حملے کیے جا چکے ہیں جس کی وجہ سے یہ مہم بارہا تعطل کا شکار بھی ہو چکی ہے۔
ادھر صوبہ خیبر پختونخواہ میں صوبائی حکومت کی طرف سے ’صحت کا انصاف‘ نامی ہفتہ وار مہم کے دوران پشاور میں بچوں کو پولیو سمیت نو موذی بیماریوں سے بچاؤ کی ویکسین دی گئی۔
اس دوران کسی قسم کا ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔ پشاور کے ایک اعلیٰ پولیس عہدیدار نجیب الرحمن نے وائس آف امریکہ کو سکیورٹی انتظامات کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ شہر میں موٹرسائیکل چلانے پر پابندی عائد کی گئی تھی جب کہ پولیس کی مختلف ٹیمیں شہر میں گشت بھی کرتی رہیں۔
’’97 یونین کونسلوں میں یہ مہم تھی تو ہم نے شہر کو تین حصوں میں تقسیم کیا تھا۔ اس دوران ہمارے اہلکار گاڑیوں اور موٹرسائیکل پر گشت بھی کرتے رہے اور مختلف جگہوں میں تلاشی کی کارروائی بھی کی گئیں۔‘‘
افغانستان اور نائیجریا کے علاوہ پاکستان وہ تیسرا ملک ہے جہاں انسانی جسم کو مفلوج کر دینے والی بیماری پولیو کے وائرس پر تاحال قابو نہیں پایا جاسکا ہے۔ پاکستان میں اب تک پولیو وائرس سے متاثرہ 22 کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں جن میں دو کے علاوہ باقی تمام قبائلی علاقے شمالی وزیرستان سے رپورٹ ہوئے۔
جمرود کے گاؤں لاشوڑا میں ہفتہ کی صبح قبائلی علاقوں کی فورس ’خاصہ دار‘ کے اہلکار بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے والی ٹیموں کی حفاظت پر مامور تھے کہ ان کی گاڑی کے قریب ایک دیسی ساختہ بم دھماکا ہوا۔
دھماکے کے بعد جیسے ہی یہاں خاصہ دار اہلکاروں کی ایک اور گاڑی اور دیگر لوگ امدادی کارروائیوں کے لیے پہنچے تو یکے بعد دیگرے دو بم دھماکے ہوئے۔
دھماکوں سے خاصہ دار فورس کی گاڑیاں مکمل طور پر تباہ ہوگئیں جب کہ 11 اہلکار ہلاک ہوگئے۔ بعد ازاں واقعے میں زخمی ہونے والا ایک بچہ اسپتال میں دم توڑ گیا۔
مرنے والے خاصہ دار فورس کے دو لائن افسران بھی شامل ہیں۔
زخمی ہونے والے 11 افراد میں سے بعض کی حالت تشویشناک ہونے کی وجہ سے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔
تاحال کسی نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے لیکن شدت پسندوں کی طرف سے اس سے پہلے بھی انسداد پولیو مہم میں شامل رضا کاروں اور ان کی حفاظت پر مامور سکیورٹی اہلکاروں پر جان لیوا حملے ہوتے رہے ہیں۔
ملک کے مختلف علاقوں میں گزشتہ ایک سال سے زائد عرصے سے انسداد پولیو مہم کے رضاکاروں اور ان کی حفاظت پر مامور سکیورٹی اہلکاروں پر شدت پسندوں کی طرف سے جان لیوا حملے کیے جا چکے ہیں جس کی وجہ سے یہ مہم بارہا تعطل کا شکار بھی ہو چکی ہے۔
ادھر صوبہ خیبر پختونخواہ میں صوبائی حکومت کی طرف سے ’صحت کا انصاف‘ نامی ہفتہ وار مہم کے دوران پشاور میں بچوں کو پولیو سمیت نو موذی بیماریوں سے بچاؤ کی ویکسین دی گئی۔
اس دوران کسی قسم کا ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔ پشاور کے ایک اعلیٰ پولیس عہدیدار نجیب الرحمن نے وائس آف امریکہ کو سکیورٹی انتظامات کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ شہر میں موٹرسائیکل چلانے پر پابندی عائد کی گئی تھی جب کہ پولیس کی مختلف ٹیمیں شہر میں گشت بھی کرتی رہیں۔
’’97 یونین کونسلوں میں یہ مہم تھی تو ہم نے شہر کو تین حصوں میں تقسیم کیا تھا۔ اس دوران ہمارے اہلکار گاڑیوں اور موٹرسائیکل پر گشت بھی کرتے رہے اور مختلف جگہوں میں تلاشی کی کارروائی بھی کی گئیں۔‘‘
افغانستان اور نائیجریا کے علاوہ پاکستان وہ تیسرا ملک ہے جہاں انسانی جسم کو مفلوج کر دینے والی بیماری پولیو کے وائرس پر تاحال قابو نہیں پایا جاسکا ہے۔ پاکستان میں اب تک پولیو وائرس سے متاثرہ 22 کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں جن میں دو کے علاوہ باقی تمام قبائلی علاقے شمالی وزیرستان سے رپورٹ ہوئے۔