پاکستان، بالخصوص صوبہ پنجاب، میں گردوں کی غیر قانونی خرید و فروخت پر مختلف حلقوں کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے اور رواں ہفتے سپریم کورٹ نے صوبائی حکومتوں کو آئندہ دو ہفتوں میں عدالت کو صورت حال سے آگاہ کرنے کی ہدایت کی ہے۔
گردوں کی خرید و فروخت کے غیر قانونی کاروبار میں ملوث افراد غربت کے ہاتھوں مجبور لوگوں کو اپنا اہم جسمانی عضو بیچنے کی طرف راغب کر کے خود تو بھاری رقوم وصول کرتے ہیں لیکن گردہ بیچنے والوں کو معقول معاوضہ ادا نہیں کیا جاتا۔
جب کہ ملک کے دور افتادہ علاقوں میں نجی اسپتالوں کا رخ کرنے والے مریضوں کو ان کے علم میں لائے بغیر اُن کے گردے نکالنے کے واقعات بھی منظر عام پر آتے رہے ہیں۔
پاکستان کا شمار ایشیا کے اُن ممالک میں کیا جاتا ہے جہاں انسانی اعضا خاص طور پر گردوں کی غیر قانونی خرید و فروخت کا سلسلہ جاری ہے اور نسبتاً کم خرچ میں پیوندکاری کے لیے بعض اوقات غیر ملکی مریض بھی پاکستان کا رخ کرتے ہیں۔
اس صورت حال کی حوصلہ شکنی کے لیے حکومت پاکستان نے طبی ماہرین کے دیرینہ مطالبے کو مانتے ہوئے 2010ء میں پارلیمان سے ایک نیا قانون منظور کرایا جس میں صرف کسی مریض کا قریبی رشتہ دار ہی اسے گردہ یا دیگر اعضا عطیہ کر سکتا ہے۔
لیکن عدالت عظمیٰ میں زیر سماعت ایک مقدمے میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ انسانی اعضا کی غیر قانونی پیوندکاری کا سلسلہ ملک میں بلا روک ٹوک جاری ہے جس کی وجہ قانون پر موثر عمل درآمد کے لیے قوائد و ضوابط کا فقدان ہے۔
چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے اس مقدمے کی رواں ہفتے ہونے والی سماعت میں صوبائی حکام خاص طور پر پنجاب حکومت کو انسانی اعضا کی پیونکاری سے متعلق قوانین کا موثر نفاذ کرنے کی سختی سے ہدایت کی ہے۔
صوبائی وزیر قانون رانا ثنا اللہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت انسانی اعضا کی غیر قانونی پیوندکاری کو روکنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کر رہی ہے۔
’’مریض کے قریبی عزیز کو گردہ عطیہ کرنے کی اجازت ہے لیکن اگر کوئی عزیز موجود نا ہو تو پھر متعلقہ اسپتالوں اور ڈاکٹروں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ عطیہ دینے والے کو اس پر مجبور تو نہیں کیا گیا۔‘‘
لیکن صوبائی وزیر قانون نے یہ اعتراف بھی کیا کہ بعض عناصر مروجہ قوانین کی خلاف ورزی میں ملوث ہیں۔
’’اگر ایک شخص یہ کہہ کر گردہ عطیہ کر رہا ہے کہ میں مریض کا عزیز ہوں اور اُسے ( حکومت سے) اجازت مل جائے ... تو بعض اوقات لین دین کا عمل بھی ہوتا ہے۔‘‘
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک میں ہر سال گردوں کی تکلیف میں مبتلا 50 ہزار سے زائد افراد کی اموات ہو رہی ہیں اور گردوں کے غیر قانونی کاروبار کی ایک بڑی وجہ ان امراض کی بلند شرح بھی ہے۔
گردوں کی خرید و فروخت کے غیر قانونی کاروبار میں ملوث افراد غربت کے ہاتھوں مجبور لوگوں کو اپنا اہم جسمانی عضو بیچنے کی طرف راغب کر کے خود تو بھاری رقوم وصول کرتے ہیں لیکن گردہ بیچنے والوں کو معقول معاوضہ ادا نہیں کیا جاتا۔
جب کہ ملک کے دور افتادہ علاقوں میں نجی اسپتالوں کا رخ کرنے والے مریضوں کو ان کے علم میں لائے بغیر اُن کے گردے نکالنے کے واقعات بھی منظر عام پر آتے رہے ہیں۔
پاکستان کا شمار ایشیا کے اُن ممالک میں کیا جاتا ہے جہاں انسانی اعضا خاص طور پر گردوں کی غیر قانونی خرید و فروخت کا سلسلہ جاری ہے اور نسبتاً کم خرچ میں پیوندکاری کے لیے بعض اوقات غیر ملکی مریض بھی پاکستان کا رخ کرتے ہیں۔
اس صورت حال کی حوصلہ شکنی کے لیے حکومت پاکستان نے طبی ماہرین کے دیرینہ مطالبے کو مانتے ہوئے 2010ء میں پارلیمان سے ایک نیا قانون منظور کرایا جس میں صرف کسی مریض کا قریبی رشتہ دار ہی اسے گردہ یا دیگر اعضا عطیہ کر سکتا ہے۔
لیکن عدالت عظمیٰ میں زیر سماعت ایک مقدمے میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ انسانی اعضا کی غیر قانونی پیوندکاری کا سلسلہ ملک میں بلا روک ٹوک جاری ہے جس کی وجہ قانون پر موثر عمل درآمد کے لیے قوائد و ضوابط کا فقدان ہے۔
چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے اس مقدمے کی رواں ہفتے ہونے والی سماعت میں صوبائی حکام خاص طور پر پنجاب حکومت کو انسانی اعضا کی پیونکاری سے متعلق قوانین کا موثر نفاذ کرنے کی سختی سے ہدایت کی ہے۔
صوبائی وزیر قانون رانا ثنا اللہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت انسانی اعضا کی غیر قانونی پیوندکاری کو روکنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کر رہی ہے۔
’’مریض کے قریبی عزیز کو گردہ عطیہ کرنے کی اجازت ہے لیکن اگر کوئی عزیز موجود نا ہو تو پھر متعلقہ اسپتالوں اور ڈاکٹروں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ عطیہ دینے والے کو اس پر مجبور تو نہیں کیا گیا۔‘‘
لیکن صوبائی وزیر قانون نے یہ اعتراف بھی کیا کہ بعض عناصر مروجہ قوانین کی خلاف ورزی میں ملوث ہیں۔
’’اگر ایک شخص یہ کہہ کر گردہ عطیہ کر رہا ہے کہ میں مریض کا عزیز ہوں اور اُسے ( حکومت سے) اجازت مل جائے ... تو بعض اوقات لین دین کا عمل بھی ہوتا ہے۔‘‘
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک میں ہر سال گردوں کی تکلیف میں مبتلا 50 ہزار سے زائد افراد کی اموات ہو رہی ہیں اور گردوں کے غیر قانونی کاروبار کی ایک بڑی وجہ ان امراض کی بلند شرح بھی ہے۔