پاکستان میں خیبر پختونخواہ کی صوبائی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ صوبے میں مقیم غیر اندراج شدہ افغان پناہ گزینوں کے خلاف 15 نومبر تک قانونی کارروائی نہیں کی جائے گی اور ان کے مسائل اور شکایات کے ازالے کے لیے ضلعی سطح پر کمیٹیاں تشکیل دی جائیں گی۔
حالیہ مہینوں میں افغانوں کو زبردستی پاکستان سے نکل جانے کے لیے دباؤ اور انھیں ہراساں کیے جانے کی خبریں منظر عام پر آتی رہی ہیں جس کی وجہ سے دہائیوں سے پاکستان میں مقیم افغانوں میں خاصی تشویش پائی جاتی رہی۔
منگل کو پشاور میں وزیراعلیٰ پرویز خٹک کی زیر صدارت ایک اجلاس ہوا جس میں صوبے کی پارلیمانی جماعتوں کے رہنما شریک ہوئے اور افغان پناہ گزینوں کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔
اجلاس کے بعد وزیراعلیٰ نے صحافیوں کو بتایا کہ وفاقی حکومت کی ہدایت کے مطابق اندراج شدہ افغانوں کو رواں سال کے اواخر تک ملک میں رہنے کی اجازت ہے جب کہ غیر اندراج شدہ افغان شہریوں کو 15 نومبر تک دستاویزی ثبوت نہ ہونے کی بنا پر گرفتاری یا مقدمے کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔
ان کے بقول اس تاریخ کے بعد وفاقی حکومت جو پالیسی وضع کرے گی صوبائی حکومت اس کے مطابق عملدرآمد کرے گی۔
صوبائی حکومت کی طرف سے افغان پناہ گزینوں کے نمائندوں اور دیگر عمائدین کی شمولیت سے بنائی گئی کمیٹی کے سربراہ اور سابق سفارتکار رستم شاہ مہمند نے اجلاس کے بعد وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ جو پناہ گزین تعلیمی اداروں میں داخلے کے خواہشمند ہیں ان کے راستے میں رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی اور ایسے ہی جو لوگ علاج کی غرض سے اسپتال میں داخل ہونے چاہتے ہیں انھیں بھی سہولت فراہم کی جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ شناختی دستاویز نہ ہونے کی بنا پر کسی افغان پناہ گزین کو ہراساں کرنا یا گرفتار کیا جانا کسی طور پر بھی مناسب نہیں۔
"حکومت پاکستان کے اداروں کی ذمہ داری ہے کہ ان کو کارڈ دیں، کارڈ نہ ہونے کی صورت میں ان کو گرفتار کرنا یہ انصاف کے خلاف ہے، دنیا میں کسی جگہ بھی نہیں ہوتا اس مہم کو بند کرنا چاہیے کیونکہ اگر ان کے پاس کارڈ نہیں ہے تو یہ ان کا قصور نہیں ہے یہ ہمارے اداروں کا قصور ہے کہ وہ وہاں ان تک نہیں پہنچ سکے۔"
سرکاری اندازوں کے مطابق پاکستان میں 15 لاکھ کے قریب افغان باشندے باقاعدہ اندراج کے ساتھ رہ رہے ہیں جب کہ اتنی ہی تعداد میں پناہ گزین بغیر قانونی دستاویزات کے ملک کے مختلف حصوں میں مقیم ہیں۔