خیبر پختونخوا کے محکمہ پولیس نے رواں سال کے ابتدائی چار ماہ کے دوران ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کی جائزہ رپورٹ جاری کی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ اس سال کے پہلے چار ماہ میں گزشتہ تین سال کے مقابلے میں اسی مدت کے دوران رونما ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کی نسبت نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق رواں سال کے پہلے چار مہینوں میں دہشت گردی کے 85 واقعات رونما ہوئے جبکہ 2014 میں اسی عرصے کے دوران 183، 2013 میں 173 اور 2012 میں 134 واقعات رونما ہوئے تھے۔
تقابلی جائزہ رپورٹ کے مطابق رواں سال بارودی مواد کے دھماکوں، بارود سے بھری گاڑیوں کے ذریعے دھماکوں اور خودکش بم دھماکوں کے واقعات میں بھی نمایاں کمی واقع ہوئی۔
دہشت گردی کے واقعات میں کمی کے ساتھ ساتھ اس سال ہدف بنا کر قتل کرنے کے واقعات بھی گزشتہ چار سالوں کے مقابلے میں سب سے کم ہیں۔
رواں سال اب تک 60 افراد قتل اور 104 زخمی ہوئے جبکہ پچھلے سال اسی مدت میں 194 افراد قتل اور 511 زخمی ہوئے تھے۔
پشاور پولیس کے سربراہ اعجاز خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ حالیہ آپریشن ’ضرب عضب‘ میں ملنے والی کامیابیوں کی وجہ سے بھی دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی آئی۔
اعجاز خان کا کہنا تھا کہ قبائلی علاقوں سے متصل شہروں میں بھی سکیورٹی کے اضافی انتظامات کیے گئے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق پشاور میں قائم صوبائی محکمۂ انسداد دہشت گردی نے ماضی کے دہشت گردی کے کیسوں میں مطلوب بہت سے خطرناک عسکریت پسندوں کو بھی گرفتار کیا ہے۔
افغانستان کی سرحد اور پاکستان کے قبائلی علاقوں سے ملحقہ صوبہ خیبر پختونخوا گزشتہ دہائی کے دوران دہشت گردی سے شدید متاثر ہوا ہے۔
گزشتہ برس دسمبر میں آرمی پبلک سکول پر مہلک حملے کے بعد ملک کی سیاسی و عسکری قیادت نے دہشتگردی کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کا آغاز کیا۔