پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ کے دارالحکومت پشاور میں ذیلی عدالت کے ججوں کو لے جانے والی ایک گاڑی پر خود کش بم حملے کے بعد صوبے کے مختلف علاقوں میں مشتبہ افراد کی تلاش کے لیے کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔
بدھ کو پشاور میں ہونے والے حملے میں ججوں کو لے جانے والی گاڑی کا ڈرائیور مارا گیا تھا جب کہ ذیلی عدالت کے چار جج اس حملے میں زخمی ہوئے۔
اس حملے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی تھی۔
صوبہ خیبر پختونخواہ کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ ماضی کے مقابلے میں اگرچہ گزشتہ دو سالوں کے دوران دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی آئی تاہم اُن کے بقول سکیورٹی فورسز عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں کے سبب مسلسل چوکس ہیں۔
پرویز خٹک نے کہا کہ صوبے میں پولیس فورس کو ناصرف جدید خطوط پر تربیت کی جا رہی ہے بلکہ اُن کے بقول اسے سیاسی اثر سے پاک کر دیا گیا ہے۔
’’جب سے ہماری حکومت بنی ہے ہم نے فوج، آئی بی، ایف آئی اے، پولیس یہ سب مل کر روزانہ معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں، اگلے دن اس پر ایکشن لیتے ہیں تو اس سے پہلے صوبے میں کبھی بھی انفارمیشن شئیر نہیں کی جاتی تھی۔۔۔۔ لیکن پچھلے ساڑھے تین سال سے روزانہ شئیر کی جاتی ہے اس پر ایکشن لیا جاتا ہے۔‘‘
پرویز خٹک نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد کی نگرانی کو موثر بنانے کے لیے کیے جانے والے انتظامات سے بھی صوبے میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں کمی آئی ہے۔
’’پاک افغان سرحد پر بارڈر منیجمینٹ ہوئی ہے کہ اس سرحد پر پہلے ہزاروں لوگ دن کو آتے تھے جاتے تھے کوئی چیک نہیں تھا وہ اب انتظام ہو گیا اس کا بھی اثر پڑا ہے۔‘‘
صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ اس کے شہری علاقے قبائلی علاقے سے جڑے ہوئے ہیں اور وہاں سے عسکریت پسند آ کر صوبے کے مختلف علاقوں میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرتے ہیں۔
بدھ ہی کو قبائلی علاقے مہمند ایجنسی میں دو خودکش حملہ آوروں نے پولٹیکل ایجنٹ کے دفتر میں گھنسے کی کوشش کی تاہم حکام کے مطابق بروقت کارروائی کے سبب عسکریت پسند اس منصوبے میں کامیاب نہیں ہوئے، البتہ اس دوران ہونے والے خودکش دھماکے میں لیویز فورس کے تین اہلکاروں سمیت پانچ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔