پاکستان کے قبائلی علاقوں ، صوبہ خیبر پختون خواہ اور بلوچستان میں گذشتہ پندرہ ماہ کے دوران مشتبہ شدت پسندوں کی طرف سے بارودی سرنگوں کے حملوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور ان میں 116 افراد ہلاک اور 285 زخمی ہو گئے ہیں۔
اس کا انکشاف ایک غیر سرکاری تنظیم سسٹین ایبل پیس اور ڈیویلپمنٹ آرگنائزیشن (SPADO) کے سربراہ رضا شاہ خان نے وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں کیا ۔ اُنھوں نے کہا کہ 2010 ء میں پاکستان میں بارودی سرنگوں کے دھماکوں میں 76 افراد ہلاک ہوئے جب کہ 190سے زائد افرادزخمی ہوئے۔
اُنھوں نے بتایا کہ رواں سال یکم جنوری سے سات مارچ تک 133 افراد بارودی سرنگوں کا نشانہ بنے جن میں سے40 ہلاک ہوئے اور اُن میں اکثریت عام شہریوں کی تھی۔
رضا شاہ نے کہا کہ رواں سال بارودی سرنگوں کے دھماکوں میں ملک کے قبائلی علاقوں میں 71 ،صوبہ بلوچستان میں 44 اور خیبر پختون خواہ میں 13 افراد نشانہ بنے۔ رضا شاہ کا کہنا ہے کہ یہ اعدادوشمارمیڈیا میں شائع ہونے والی خبروں اور اُن کی ٹیموں کی طرف سے جمع کیے جانے والے حقائق پر مشتمل ہیں۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ حالیہ ہفتوں میں بلوچستان میں سکیورٹی فورسز اور تیل و گیس کی کمپنیوں کے ملازمین کی گاڑیوں پر بارودی سرنگوں کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔
رضا شاہ نے بتایا کہ جولائی 2010ء میں آنے والے سیلاب کے باعث ملک کے بالائی علاقوں بالخصوص جنوبی وزیرستان میں شدت پسندوں کی طرف سے نصب بارودی سرنگیں بہہ کر ٹانک اور ڈیر ہ اسماعیل خان کے اضلاع میں آگئیں جو مقامی آبادی کے لیے خطرہ بنی ہوئی ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ حالیہ مہینوں میں ڈیر ہ اسماعیل خان میں ایک ایسی بارودی سرنگ کے دھماکے سے ایک بچہ اور عورت جسمانی معذوری کا شکار ہو گئے۔
ایس پی اے ڈی او کے سربراہ کا کہنا ہے کہ اُن کی تنظیم بارودی سرنگوں کے خطرات سے آگاہی کے لیے مہم بھی چلارہی ہے۔