پاکستان کی حکومت نے پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے قانون سازوں کی تنخواہوں میں اضافے کی منظوری دی ہے لیکن مبصرین کا کہنا ہے کہ تنخواہوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ قانون سازوں کی کارکردگی کا بھی جائزہ لیا جانا ضروری ہے۔
قانون ساز ایک عرصے سے اپنی تنخواہوں میں اضافے کے لیے ایوان میں مطالبہ کرتے رہے ہیں اور ان کا موقف رہا ہے کہ مہنگائی سے وہ بھی دیگر طبقوں کی طرح متاثر ہوتے ہیں۔
قانون سازوں نے رواں مالی سال کے لیے بھی تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ کیا تھا لیکن دو ماہ قبل ہی حکومت نے اس مسترد کر دیا تھا۔
بدھ کو وزیراعظم نواز شریف کی زیر صدارت ہونے والے کابینہ کے اجلاس میں قانون سازوں کی تنخواہوں میں اضافے کی منظوری دی گئی۔
اکثر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ پارلیمان کے اجلاسوں میں قانون سازوں کی حاضری کم ہوتی ہے جس کی وجہ سے بعض اوقات اجلاس کی کارروائی کو جاری رکھنے کے لیے درکار تعداد نہ ہونے پر اجلاس ملتوی کر دیے جاتے رہے ہیں۔
شفاف انتخابات اور جمہوریت کے فروغ کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم "فافین" کے عہدیدار مدثر رضوی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں قانون سازوں کی تنخواہوں میں اضافے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس میں کوئی مضائقہ نہیں لیکن ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ ارکان پارلیمان کی کارکردگی کو بھی بہتر بنانے پر توجہ دی جانی چاہیے۔
"اس تصور کے ساتھ پارلیمنٹ نہیں چلائی جا سکتی ہے کہ پارلیمان میں آنے والے سارے ہی متمول لوگ ہیں۔۔۔(اگر تنخواہیں بڑھ رہی ہیں تو) ان کی کارکردگی کا بھی جائزہ لیا جانا چاہیے، ان کی حاضری پوری ، بہت سارے ارکان ایک لمبے عرصے تک پارلیمنٹ میں نہیں آئے۔۔۔ہماری توقع ہے کہ ان کی حاضری بہتری ہو قانون سازی کا معیار بہتر ہو، تو کوئی مضائقہ نہیں۔"
اطلاعات و نشریات کی وزیر مملکت مریم اورنگزیب نے وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ قانون سازوں کی تنخواہوں میں گزشتہ کئی سالوں سے اضافہ نہیں ہوا تھا۔
"گزشتہ 14، 15 سالوں میں کوئی اضافہ نہیں ہوا تھا جو ہوا بھی وہ جزوقتی سہولت کے لیے تھا اور اگر افراط زر کی شرح دیکھیں تو جو جز وقتی اضافہ ہوا وہ کبھی پانچ ہزار تھا اور یہ بھی پہلی مرتبہ 2010ء میں کیا گیا۔"
وفاقی وزارت خزانہ کی طرف سے جو اضافہ تجویز کیا گیا تھا اس کے مطابق سینیٹ اور قومی اسمبلی کے چیئرمین اور اسپیکر کی بنیادی تنخواہ کو ایک لاکھ 19 ہزار آٹھ روپے سے بڑھا کر دو لاکھ پانچ ہزار روپے جب کہ قانون سازوں کی بنیادی تنخواہ کو 44 ہزار 630 سے بڑھا کر ڈیڑھ لاکھ روپے کرنے کا کہا گیا۔
ایوان زیریں (قومی اسمبلی) میں قانون سازوں کی تعداد 342 جب کہ ایوان بالا (سینیٹ) کے ارکان کی تعداد 104 ہے۔