دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی جمعے کو خواندگی کا عالمی دن منایا گیا جس کا مقصد معاشرے اور افراد کے لیے تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔
پاکستان میں تعلیم کے فروغ کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ’الف اعلان‘ کے مطابق پاکستان میں اس وقت بھی 10 سال اور اس سے زیادہ عمر کی آبادی میں خواندگی کا تناسب 58 فی صد ہے۔
’الف اعلان‘ کے مطابق شہری علاقوں میں شرحِ خواندگی 74 فی صد جب کہ دیہی علاقوں میں 49 فی صد ہے۔
واضح رہے کہ 2007ء اور 2008ء میں بھی سرکاری طور پر بتائی گئی شرحِ خواندگی 58 فیصد ہی تھی۔
حالیہ برسوں میں دو مرتبہ یہ شرح 60 فیصد تک پہنچی لیکن پھر نیچے آ گئی۔
پاکستان میں شرح خواندگی کی عمومی تعریف
پاکستان میں کسی بھی زبان میں سادہ خط پڑھنے اور لکھنے کی صلاحیت کے حامل افراد کو خواندہ کہتے ہیں۔
ماہرینِ تعلیم کہتے ہیں اس تعریف کے مطابق بھی پاکستان میں شرحِ خوانداگی کا 58 فیصد ہونا ملک کی معاشی ترقی کے حصول کی راہ میں ایک رکاوٹ ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان کی وفاقی وزارتِ تعلیم نے ملک میں تعلیم کی صورتِ حال کو بہتر بنانے کے لیے 2013ء میں پانچ سالہ نیشنل پلان آف ایکشن شائع کیا تھا جس کے تحت حکومت نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ دو سال کے اندر شرحِ خواندگی میں 50 فی صد بہتری لائی جائے گی۔
پاکستان میں تعلیمی شعبے کی صورتِ حال غیر تسلی بخش رہی ہے اور سرکاری اعداد و شمار کے مطابق دو کروڑ 20 لاکھ بچے اب بھی اسکول نہیں جاتے۔
پاکستان اس وقت تعلیم پر سالانہ ملک کی مجموعی پیداوار کا لگ بھگ دو فی صد سے خرچ کرتا ہے جب کہ اقوامِ متحدہ کے مطابق اس شرح کو کم ازکم چار فی صد تک ہونا چاہیے۔
موجودہ حکومت کے عہدیدار کہتے رہے ہیں کہ اس دورِ حکومت میں تعلیم کے بجٹ میں بتدریج اضافہ کرتے ہوئے اسے چار فی صد تک لے جایا جائے گا، لیکن اب تک ایسا نہیں ہو سکا ہے۔
پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 25 الف کے تحت ریاست پانچ سے 16 سال تک کی عمر کے تمام بچوں کو مفت تعلیم دینے کی پابند ہے۔
پاکستان میں حکام کے مطابق ملک کے ترقیاتی اہداف کو حاصل کرنے کے لیے شرحِ خواندگی میں اضافہ اشد ضروری ہے اور وفاقی وزیر احسن اقبال کے بقول 2025ء تک 90 فی صد شرحِ خواندگی کا ہدف حاصل کرنے کے لیے اس اضافے کی رفتار مزید بڑھانے کی ضرورت ہے۔