پاکستان کے شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخواہ میں بدھ کو نا معلوم مسلح افراد نے فائرنگ کر کے انسداد پولیو ٹیم کی حفاظت پر معمور ایک پولیس اہلکار کو ہلاک اور ایک کو زخمی کر دیا۔
پولیس حکام کے مطابق یہ واقعہ ضلع مردان کے علاقے پار ہوتی میں پیش آیا جہاں انسداد پولیو مہم کی خاتون رضاکار بچوں کو ویکسین پلانے کے لیے ایک گھر میں موجود تھی کہ نا معلوم مسلح افراد نے وہاں ٹیم کی حفاظت پر معمور پولیس اہلکاروں پر فائرنگ کر دی۔
فائرنگ سے ایک پولیس اہلکار راج ولی موقع پر ہی ہلاک جب کہ دوسرا شدید زخمی ہوگیا جسے پشاور کے ایک اسپتال منتقل کردیا گیا ہے۔
گزشتہ سال کے اواخر سے صوبہ خیبر پختونخواہ اور کراچی کے مختلف علاقوں میں پولیو رضاکاروں اور ان کی حفاظت پر معمور اہلکاروں کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے جس میں خواتین رضا کاروں سمیت درجن سے زائد افراد مارے گئے۔
فروری میں بھی مردان ہی کے علاقے میں ایک پولیس اہلکار کو فائرنگ کر کے ہلاک کیا گیا جب کہ پولیو مہم سے وابستہ رضا کاروں کو زدو کوب کرنے کے واقعات بھی سامنے آئے۔
پاکستان، نائیجریا اور افغانستان کے علاوہ دنیا کا وہ تیسرا ملک ہے جہاں انسانی جسم کو اپاہج کردینے والی بیماری پولیو کے وائرس پر تاحال پوری طرح سے قابو نہیں پایا جاسکا ہے۔
پاکستان میں انسداد پولیو مہم 1994ء میں باقاعدہ طور پر شروع کی گئی اور اس کے خاطر خواہ نتائج بھی برآمد ہوتے دکھائی دیے لیکن حالیہ برسوں میں اس مہم کو متعدد مشکلات کا سامنا رہا ہے جس باعث مبصرین اس خدشے کا اظہار کرتے ہیں کہ اس سے ملک کو پولیو سے پاک کرنے کا ہدف حاصل کرنا مشکل تر ہوتا جائے گا۔
حالیہ مہینوں میں بھی سلامتی کے خدشات اور مختلف واقعات میں پولیو مہم کے رضاکاروں پر حملوں کی وجہ سے انسداد پولیو مہم کو کئی بار عارضی طور پر تعطل کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
پاکستان میں عالمی ادارہ صحت کے ایک اعلیٰ عہدیدار الیاس درے رواں ماہ وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اس امید کا اظہار کرچکے ہیں کہ انسداد پولیو مہم اگر تواتر سے جاری رہی تو پاکستان سے پولیو کے مکمل خاتمے کا ہدف مقررہ وقت میں حاصل کر لیا جائے گا۔
پاکستان میں گزشتہ سال پولیو سے متاثرہ 58 کیسز رپورٹ ہوئے جب کہ رواں برس اب تک 5 کیسز کی تصدیق ہوچکی ہے۔
پولیس حکام کے مطابق یہ واقعہ ضلع مردان کے علاقے پار ہوتی میں پیش آیا جہاں انسداد پولیو مہم کی خاتون رضاکار بچوں کو ویکسین پلانے کے لیے ایک گھر میں موجود تھی کہ نا معلوم مسلح افراد نے وہاں ٹیم کی حفاظت پر معمور پولیس اہلکاروں پر فائرنگ کر دی۔
فائرنگ سے ایک پولیس اہلکار راج ولی موقع پر ہی ہلاک جب کہ دوسرا شدید زخمی ہوگیا جسے پشاور کے ایک اسپتال منتقل کردیا گیا ہے۔
گزشتہ سال کے اواخر سے صوبہ خیبر پختونخواہ اور کراچی کے مختلف علاقوں میں پولیو رضاکاروں اور ان کی حفاظت پر معمور اہلکاروں کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے جس میں خواتین رضا کاروں سمیت درجن سے زائد افراد مارے گئے۔
فروری میں بھی مردان ہی کے علاقے میں ایک پولیس اہلکار کو فائرنگ کر کے ہلاک کیا گیا جب کہ پولیو مہم سے وابستہ رضا کاروں کو زدو کوب کرنے کے واقعات بھی سامنے آئے۔
پاکستان، نائیجریا اور افغانستان کے علاوہ دنیا کا وہ تیسرا ملک ہے جہاں انسانی جسم کو اپاہج کردینے والی بیماری پولیو کے وائرس پر تاحال پوری طرح سے قابو نہیں پایا جاسکا ہے۔
پاکستان میں انسداد پولیو مہم 1994ء میں باقاعدہ طور پر شروع کی گئی اور اس کے خاطر خواہ نتائج بھی برآمد ہوتے دکھائی دیے لیکن حالیہ برسوں میں اس مہم کو متعدد مشکلات کا سامنا رہا ہے جس باعث مبصرین اس خدشے کا اظہار کرتے ہیں کہ اس سے ملک کو پولیو سے پاک کرنے کا ہدف حاصل کرنا مشکل تر ہوتا جائے گا۔
حالیہ مہینوں میں بھی سلامتی کے خدشات اور مختلف واقعات میں پولیو مہم کے رضاکاروں پر حملوں کی وجہ سے انسداد پولیو مہم کو کئی بار عارضی طور پر تعطل کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
پاکستان میں عالمی ادارہ صحت کے ایک اعلیٰ عہدیدار الیاس درے رواں ماہ وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اس امید کا اظہار کرچکے ہیں کہ انسداد پولیو مہم اگر تواتر سے جاری رہی تو پاکستان سے پولیو کے مکمل خاتمے کا ہدف مقررہ وقت میں حاصل کر لیا جائے گا۔
پاکستان میں گزشتہ سال پولیو سے متاثرہ 58 کیسز رپورٹ ہوئے جب کہ رواں برس اب تک 5 کیسز کی تصدیق ہوچکی ہے۔