پاکستان کو غیر ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر کی کم سے کم حد دستیاب رکھنے میں مشکلات کا سامنا ہے جب کہ آئندہ ماہ سعودی عرب کو دو ارب ڈالرز کا قرض بھی ادا کرنا ہے۔
پاکستان کے مرکزی بینک کے پاس 12 ارب ڈالرز سے کچھ زائد غیر ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر موجود ہیں۔ جو کہ زیادہ تر غیر ملکی قرض سے حاصل کیے گئے ہیں۔
آئی ایم ایف کے اندازے کے مطابق زرِ مبادلہ کے موجودہ ذخائر سے صرف تین ماہ کے عرصے تک کے لیے درآمدات کی ادائیگی ممکن ہو گی۔
آئندہ ماہ تک سعودی عرب کو دو ارب ڈالرز کی قرض ادائیگی کے بعد پاکستان کے زرمبادلہ کے محدود ذخائر پر مزید بوجھ پڑنے والا ہے۔
اقتصادی ماہرین کہتے ہیں کہ سعودی عرب سے حاصل قرض کی ادائیگی کا متبادل تلاش نہ کر پانے کی صورت میں پاکستان عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے پروگرام کو جاری نہیں رکھ سکے گا۔
سعودی عرب نے 2018 کے آخر میں پاکستان کو چھ ارب 20 کروڑ ڈالرز کا مالی پیکیج دیا تھا جس میں تین ارب ڈالرز کی نقد امداد اور تین ارب 20 کروڑ ڈالرز کی سالانہ تیل و گیس کی موخر ادائیگیاں شامل تھیں۔
وزارتِ خزانہ کے ذرائع کے مطابق سعودی عرب نے قرض کی ادائیگی کی مقررہ مدت میں توسیع کرنے سے آگاہ نہیں کیا جس کے بعد اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے قرض ادائیگی اور زرِ مبادلہ کے ذخائر کی کم از کم حد برقرار رکھنے کی حکمتِ عملی طے کرنا شروع کر دی ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں حالیہ عرصے میں بظاہر سرد مہری پائی جاتی ہے جو کہ وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کے مسئلہ کشمیر پر اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کے کردار پر تحفظات کے بعد سامنے آئے۔
وزیرِ خارجہ کے اس بیان کے بعد سعودی عرب نے فراہم کردہ تین ارب ڈالرز میں سے ایک ارب ڈالرز کی واپسی کا تقاضہ کیا تھا جو کہ پاکستان نے اگست میں چین سے حاصل کر کے ادا کیے تھے۔
اقتصادی امور کے صحافی مہتاب حیدر کہتے ہیں کہ سعودی عرب سے حاصل چھ ارب 20 کروڑ ڈالرز کے مالیاتی پیکیج نے حکومت کو بین الاقوامی قرضوں کی ذمہ داریوں پر عدم استحکام سے بچنے میں مدد فراہم کی تھی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں مہتاب حیدر نے کہا کہ اگر پاکستان سعودی عرب کو ادا واجب الادا دو ارب ڈالرز کے متبادل انتظامات نہیں کرتا تو آئی ایم ایف پروگرام آگے نہیں چل سکے گا۔
مہتاب حیدر کہتے ہیں کہ وزیرِ اعظم کے معاشی اشاریے درست سمت میں ہونے کے دعوے اپنی جگہ ہیں۔ مگر زمینی حقائق اچھے نہیں ہیں۔ حکومت کو اپنی معاشی حکمتِ عملی پر نظرِ ثانی کرنا ہو گی۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پاکستان کے سیاسی سطح پر رابطے کے بعد سعودی عرب قرض کی واپسی پر نظرِ ثانی کر سکتا ہے۔
سابق سفارت کار آصف درانی کہتے ہیں کہ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات مضبوط معاشی و دفاعی تعاون پر مبنی ہیں جس کو دوطرفہ گہرا سفارتی تعاون بھی حاصل ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں آصف درانی نے کہا کہ وزیرِ خارجہ شاہ محمود کے بیان سے جو تعلقات میں بگاڑ پیدا ہوا تھا وہ عارضی تھا اور اس قسم کے معاملات کو دیکھنے کے لیے دونوں ملکوں کے درمیان مضبوط نظام موجود ہے جو غلط فہمیوں کو دور کرتا ہے۔
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے پاس موجود زرِ مبادلہ کے ذخائر غیر ملکی قرض پر مشتمل ہیں جن کی ادائیگی سے یہ منفی ہو جائیں گے۔
واضح رہے کہ پاکستان معاشی مشکلات کا شکار ہے اور آئندہ سال کے آغاز پر اسے متحدہ عرب امارات کو دو ارب ڈالرز بھی ادا کرنا ہے۔ جب کہ چین سے حاصل تین ارب ڈالرز کی واپسی کی مدت بھی آئندہ سال کے وسط میں ختم ہو رہی ہے۔