پاکستان کے ایک معروف اُردو اخبار ’نوائے وقت‘ کے رپورٹر ذیشان اشرف بٹ 27 مارچ کو سیالکوٹ کے علاقے بیگووالا پہنچے جہاں وہ یونین کونسل کی طرف سے مقامی دکانداروں پر لگائے گئے ایک ٹیکس کے بارے میں کونسل کے چیئرمین عمران چیمہ سے انٹرویو کرنے کے خواہش مند تھے۔ جب وہ یونین کونسل کے ہیڈ کوارٹر کے باہر عمران چیمہ سے انٹرویو کی کوشش کر رہے تھے تو عمران چیمہ نے اُنہیں گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ مقتول صحافی کے بھائی کا کہنا تھا کہ عمران چیمہ ذیشان کے سولات پر بہت غصے میں آ گیا اور اسے گولی مار کر وہاں سے فرار ہو گیا۔
یوں ایک 29 سالہ صحافی ایک سیاستدان کے غضب کا نشانہ بنتے ہوئے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔
صحافت سے متعلق ایک بین الاقوامی تنظیم Journalists without Borders کے ڈینئل بسٹارڈ نے اس واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان میں صحافیوں کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لئے فوری اقدامات کئے جائیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ پاکستان آزادی صحافت کے انڈکس میں 180 ممالک کی فہرست میں 139 ویں نمبر پر ہے۔
ڈینئل کہتے ہیں کہ پاکستان میں انتہا پسند گروپوں اور خصوصی طور پر مذہبی انتہا پسند گروپوں، ملٹری ایسٹیبلشمنٹ اور آئی ایس آئی کی طرف سے صحافیوں پر شدید دباؤ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سول حکومت کے مقابلے میں فوج اب بھی زیادہ با اختیار ہے جو پریشان کن بات ہے۔
ڈینئل نے پشتون تحفظ تحریک کو مناسب انداز میں کوریج نہ ملنے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام صحافتی اصولوں کی خلاف ورزی اور بلیک میلنگ ہے۔
صحافت سے متعلق ایک پاکستانی ادارے MMD کی صدف خان نے وائس آف امریکہ کے پروگرام ویو 360 میں میزبان سارا زمان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں میڈیا پر مسلسل جاری دباؤ کی وجہ سے حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ سیلف سینسرشپ کے بغیر صحافیوں کے لئے اپنے کام کو جاری رکھنا مشکل ہو گیا ہے۔
اُن کا کہنا ہے کہ صحافیوں کو ریاستی اور غیر ریاستی عناصر کی طرف سے دھمکیاں ملتی رہتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں صحافتی حالات سیلف سینسرشپ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
صدف خان کہتی ہیں کہ حالیہ برسوں میں چند بڑے چینل بند ہو گئے ہیں۔ میڈیا کے اداروں کا کہنا ہے کہ اُن کی آمدنی اشتہارات سے آتی ہے۔ تاہم یہ کوئی نہیں جانتا کہ اُن کی فنڈنگ حقیقت میں کہاں سے آ رہی ہے۔ یوں آمدنی کے ذرائع واضح اور شفاف نہ ہونے کے باعث یہ سوال ابھرنے لگے ہیں کہ یہ واقعی حقیقی صحافت ہے یا پھر یہ کسی بڑے پراپیگنڈے کا حصہ ہے۔
اسلام آباد کے ایک سینئر صحافی شاہدالرحمان کا کہنا ہے کہ بظاہر پاکستان میں سینسرشپ نہیں ہے لیکن خبروں کی management کی جاتی ہے۔ ہر سیاسی جماعت، حکومت اور ادارے ہیڈ لائینز لگوانے اور روکنے کے چکر میں رہتے ہیں جس کے نتیجے میں صحافی خود سیلف سینسرشپ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
کراچی کے سینئر صحافی مظہر عباس کا کہنا ہے کہ پچھلے چند برسوں میں غیر مرئی دباؤ میں اضافہ ہوا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ ماضی میں صحافیوں پر جو پریشر ہوتے تھے وہ دکھائی دیتے تھے۔ آپ کو پتہ چلتا تھا کہ یہ دباؤ حکومت کی طرف سے، پیمرا کی طرف سے، کسی قانون نافذ کرنے والے ادارے کی طرف سے یا پھر غیر ریاستی عناصر کی طرف سے آیا ہے۔ لیکن اب پتہ نہیں چلتا کہ یہ دباؤ کہاں سے آ رہا ہے۔
لاہور کے سینئر صحافی عارف حمید بھٹی کہتے ہیں کہ کوئی بھی سچ سننا، دیکھنا یا بولنا نہیں چاہتا جبکہ کوئٹہ پریس کلب کے صدر شہزادہ ذووالفقار کا مؤقف ہے کہ صحافیوں کو دھمکیاں دی جاتی ہیں، مارا جاتا ہے اور اُن کے ساتھ زیادتی کی جاتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی میڈیا نے گزشتہ دس پندرہ برسوں میں حیرت انگیز ترقی کرتے ہوئے ایک صنعت کا درجہ حاصل کر لیا ہے۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران پاکستان میں صحافیوں کو قتل کئے جانے کے واقعات میں بھی بتدریج کمی آئی ہے جس کی وجہ پاکستان کے مختلف علاقوں اور خاص طور پر فاٹا کے علاقے میں پاکستانی فوج کی دہشت گردی کے خلاف کارروائیاں ہیں۔ ان کارروائیوں کے نتیجے میں بہت سے دہشت گرد مارے گئے اور باقی افغانستان فرار ہو گئے۔ یوں دہشت گرد تنظیموں کی طرف سے صحافیوں کے نشانہ بننے کے واقعات بڑی حد تک کم ہو گئے ہیں۔ تاہم بین الاقوامی صحافتی تنظیم RSF کا کہنا ہے کہ اب صحافیوں کو ریاستی سیکورٹی اداروں کی طرف سے دھمکی آمیز فون کالز، سڑکوں پر مارپیٹ اور گمشدگیوں جیسے مسائل کا سامنا ہے۔
تنظیم کا کہنا ہے کہ ایسے حالات میں میڈیا کے تمام بڑے ادارے محتاط انداز اختیار کر رہے ہیں تاکہ اپنے تجارتی مفادات کا تحفط کر سکیں۔ دوسری طرف صحافی خود اپنی اور اپنے اہل خانہ کی سیکورٹی کے حوالے سے فکر مند دکھائی دیتے ہیں۔
اس تمام صورت حال کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان میں آزادی اظہار اور آزادی تحریر شدید طور پر متاثر ہو رہی ہے اور صحافیوں کے لئے بظاہر اس کے سوا کوئی راستہ نہیں بچا ہے کہ وہ خود سیلف سینسرشپ کی چادر اوڑھ لیں۔