امریکی قیادت کو بھیجے گئے متنازع ’میمو‘ کے مبینہ مرکزی کردار سابق سفیر حسین حقانی نے پیر کو اسلام آباد میں عدالتی تحقیقاتی کمیشن کے روبرو اپنے ابتدائی بیان میں متنازع مراسلے سے اظہار لاتعلقی کرتے ہوئے ایک بار پھر کہا ہے کہ نا تو اُنھوں نے اسے تحریر کیا اور نا ہی اسے امریکی حکام کو بھیجنے میں ان کا کوئی کردار تھا۔
بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائض عیسیٰ کی سربراہی میں تحقیقات کرنے والے تین رکنی کمیشن کے سامنے اپنے بیان میں سابق سفیر نے کہا کہ اس معاملے میں انھیں جان بوجھ کر ملوث کرنے کی کوشش کی گئی۔
’’منصور اعجاز کے اخباری مضمون کی اشاعت کے بعد میں نے خود ہی 16 نومبر کو صدر آصف علی زرداری کے نام خط میں بطور پاکستان کے سفیر مستعفی ہونے کی پیش کش کی تھی۔‘‘
اُن کا بیان سننے کے بعد کمیشن کے سربراہ نے حسین حقانی کو آئندہ اجلاسوں میں پیش ہونے سے مستثنیٰ قرار دیتے ہوئے کہا کہ جب ضرورت محسوس ہوئی اُنھیں طلب کیا جائے گا۔
اس سے قبل امریکی شہری منصور اعجاز کے وکیل اکرم شیخ نے کمیشن کو بتایا کہ ان کے موکل کو اگر ویزہ جاری کر دیا جائے تو وہ اپنا موقف پیش کرنے کے لیے 16 جنوری کو پاکستان پہنچ جائیں گے۔
کمیشن کے استفسار پر اٹارنی جنرل مولوی انوار الحق نے بتایا کہ لندن اور دیگر شہروں میں پاکستانی سفارت خانوں کو اس سلسلے میں خصوصی ہدایات جاری کر دی گئی ہیں۔ ’’جیسے ہی منصور اعجاز پاکستان آنے کے لیے درخواست جمع کرائیں گے اُنھیں ویزا جاری کر دیا جائے گا۔‘‘
اکرم شیخ نے عدالتی کمیشن کو بتایا کہ منصور اعجاز نے بلیک بیری موبائل فون سروسز فراہم کرنے والی کینیڈا میں قائم کمپنی ’ریسرچ اِن موشن (رِم)‘ کو تحریری طور پر آگاہ کر دیا ہے کہ اُنھیں اپنے فون ریکارڈ کے اجراء پر کوئی اعتراض نہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی بھی رِم کو اس نوعیت کی رضامندی کا اظہار کریں۔
لیکن حسین حقانی کا کہنا تھا کہ وہ کم از کم ’’اس مرحلے پر‘‘ ایسا نہیں کر سکتے کیوں کہ اُن کے ریکارڈ میں ایسی معلومات بھی شامل ہوں گی جن کا براہ راست میمو اسکینڈل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
سابق سفیر کی تحقیقاتی کمیشن کے سامنے پیشی کے موقع پر اسلام آباد ہائی کورٹ کی عمارت کے اطراف میں سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے۔
کمیشن کی کارروائی کے موقع پر میمو سے متعلق مرکزی درخواست گزار اور حزب اختلاف کی جماعت مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔
بعد ازاں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ ’’میمو انتہائی سنگین معاملہ‘‘ ہے جس کی تحقیقات ضرور ہونی چاہیئں۔
’’کسی نہ کسی نے یہ سازش ضرور کی ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ ان کے چہرے قوم کے سامنے آنے چاہیئں۔‘‘
سپریم کورٹ نے 30 دسمبر 2011ء کو میمو اسکینڈل سے متعلق آئینی درخواستوں کو قابل سماعت قرار دیتے ہوئے اس معاملے کی چھان بین کے لیے عدالتی کمیشن کا اعلان کیا تھا جس کو اپنی تحقیقات مکمل کرنے کے لیے چار ہفتوں کا وقت دیا گیا ہے۔
صدر آصف علی زرداری، وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور حکومت کے دیگر نمائندے میمو کو محض کاغذ کا ایک بے وقعت ٹکڑا اور ایک غیر اہم ایشو قرار دیتے ہیں جو ان کے بقول جمہوری نظام کے خلاف سازش کا حصہ ہے۔
لیکن فوج اور اس کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہان نے سپریم کورٹ کے سامنے اپنے بیانات حلفی میں میمو کو ایک حقیقیت قرار دے کر اس کی تحقیقات پر زور دیا ہے۔