اسلام آباد —
انسداد دہشت گردی کی جنگ میں شامل ہونے کے بعد سے پاکستان کو ملکی سطح پر بھی شدت پسندوں کی کارروائیوں میں شدید جانی و مالی نقصان کا سامنا رہا ہے اور ایک ایسے وقت جب ملک عام انتخابات کی طرف بڑھ رہا ہے اکثریت کی جانب سے امن و امان کی صورتحال پر تحفظات کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے۔
طالبان شدت پسندوں کی طرف سے حکومت سے مشروط مذاکرات کی پیشکش پر تاحال کوئی عملی پیش رفت نہیں ہو سکی ہے تاہم ملک کی سیاسی و مذہبی جماعتوں نے قیام امن کے لیے متفقہ لائحہ عمل وضع کرنے کے لیے کوششیں تیز کر دی ہیں۔
حالیہ ہفتوں میں پہلے حکمران اتحاد میں شامل عوامی نیشنل پارٹی اور پھر حزب مخالف کی جماعت جمیعت علمائے اسلام (ف) کی طرف سے اس سلسلے میں کل جماعتی کانفرنسوں کا انعقاد کیا جا گیا ہے۔
اے این پی کی طرف سے ہونے والی کانفرنس میں قیام امن کے لیے مذاکرات کو ترجیح دینے کا فیصلہ کیا گیا لیکن تحریک طالبان پاکستان نے اسے مسترد کردیا تھا۔ لیکن جمیعت علما اسلام کی کل جماعتی کانفرنس میں ملک کی مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے علاوہ قبائلی عمائدین نے بھی شرکت کی تھی جسے طالبان نے ایک خوش آئند اقدام قرار دیا تھا۔
ایک روز قبل صوبہ خیبر پختونخواہ کے گورنر ہاؤس میں ایک جرگہ منعقد ہوا جس میں ملک کے قبائلی علاقوں کے عمائدین، فاٹا کے ارکان پارلیمنٹ اور مولانا فضل الرحمن نے شرکت کی۔
اس گرینڈ جرگے کے شرکا نے قیام امن کے لیے طالبان سے مذاکرات سمیت بھرپور کوششیں کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی۔ مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ یہ طے کیا جائے گا کہ حکومت اور طالبان کو کس طرح مذاکرات کے لیے آمادہ کیا جائے، طالبان سے کیسے رابطہ کیا جائے اور ان تک رسائی کیسے حاصل کی جائے۔
گورنر خیبر پختونخواہ انجینیئر شوکت اللہ کا کہنا تھا کہ یہ اس سلسلے کی پہلی ملاقات تھی اور قومی قیادت اس جرگے کو عسکریت پسندوں کے ساتھ بات چیت کے لیے پہلے ہی اختیار دی چکی ہے جس میں وہ بھی اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے۔
’’اس کے آگے جو مراحل آئیں گے میری کوشش ہوگی کہ میں اس میں گورنر ہاؤس کو ان کا رابطہ آفس قرار دوں اور قبائلی ایجنسیوں میں جتنے بھی پولیٹیکل ایجنٹ ہوں وہ ان کو ہر قسم کی مدد فراہم کریں گے۔‘‘
ادھر مقامی ذرائع ابلاغ میں تحریک طالبان کی طرف سے یہ خبر بھی منظر عام پر آئی ہے کہ سیاسی قیادت کے علاوہ پاکستانی فوج کی طرف سے بھی ان مذاکرات پر کسی پیش رفت سامنے آنی چاہیے۔
تاہم ہفتہ کو وفاقی وزیراطلاعات نے صحافیوں سے گفتگو میں ایک بار پھر حکومت موقف کو دہراتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے تمام گروہوں یا عناصر سے مذاکرات ہو سکتے ہیں جو آئین و قانون اور ریاست کو تسلیم کریں۔
پاکستان میں سیاسی و مذہبی جماعتوں کا موقف ہے کہ ایسے وقت جب افغانستان سے غیر ملکی افواج انخلا کی تیاری کر رہی ہیں اور افغان حکومت بھی ملک میں قیام امن کے لیے طالبان اور دیگر متحارب دھڑوں سے مذاکرات پر آمادہ ہے تو پاکستان کو بھی شدت پسندی کے خاتمے کے لیے بات چیت کا راستہ اپنانا چاہیئے۔
طالبان شدت پسندوں کی طرف سے حکومت سے مشروط مذاکرات کی پیشکش پر تاحال کوئی عملی پیش رفت نہیں ہو سکی ہے تاہم ملک کی سیاسی و مذہبی جماعتوں نے قیام امن کے لیے متفقہ لائحہ عمل وضع کرنے کے لیے کوششیں تیز کر دی ہیں۔
حالیہ ہفتوں میں پہلے حکمران اتحاد میں شامل عوامی نیشنل پارٹی اور پھر حزب مخالف کی جماعت جمیعت علمائے اسلام (ف) کی طرف سے اس سلسلے میں کل جماعتی کانفرنسوں کا انعقاد کیا جا گیا ہے۔
اے این پی کی طرف سے ہونے والی کانفرنس میں قیام امن کے لیے مذاکرات کو ترجیح دینے کا فیصلہ کیا گیا لیکن تحریک طالبان پاکستان نے اسے مسترد کردیا تھا۔ لیکن جمیعت علما اسلام کی کل جماعتی کانفرنس میں ملک کی مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے علاوہ قبائلی عمائدین نے بھی شرکت کی تھی جسے طالبان نے ایک خوش آئند اقدام قرار دیا تھا۔
ایک روز قبل صوبہ خیبر پختونخواہ کے گورنر ہاؤس میں ایک جرگہ منعقد ہوا جس میں ملک کے قبائلی علاقوں کے عمائدین، فاٹا کے ارکان پارلیمنٹ اور مولانا فضل الرحمن نے شرکت کی۔
اس گرینڈ جرگے کے شرکا نے قیام امن کے لیے طالبان سے مذاکرات سمیت بھرپور کوششیں کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی۔ مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ یہ طے کیا جائے گا کہ حکومت اور طالبان کو کس طرح مذاکرات کے لیے آمادہ کیا جائے، طالبان سے کیسے رابطہ کیا جائے اور ان تک رسائی کیسے حاصل کی جائے۔
گورنر خیبر پختونخواہ انجینیئر شوکت اللہ کا کہنا تھا کہ یہ اس سلسلے کی پہلی ملاقات تھی اور قومی قیادت اس جرگے کو عسکریت پسندوں کے ساتھ بات چیت کے لیے پہلے ہی اختیار دی چکی ہے جس میں وہ بھی اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے۔
’’اس کے آگے جو مراحل آئیں گے میری کوشش ہوگی کہ میں اس میں گورنر ہاؤس کو ان کا رابطہ آفس قرار دوں اور قبائلی ایجنسیوں میں جتنے بھی پولیٹیکل ایجنٹ ہوں وہ ان کو ہر قسم کی مدد فراہم کریں گے۔‘‘
ادھر مقامی ذرائع ابلاغ میں تحریک طالبان کی طرف سے یہ خبر بھی منظر عام پر آئی ہے کہ سیاسی قیادت کے علاوہ پاکستانی فوج کی طرف سے بھی ان مذاکرات پر کسی پیش رفت سامنے آنی چاہیے۔
تاہم ہفتہ کو وفاقی وزیراطلاعات نے صحافیوں سے گفتگو میں ایک بار پھر حکومت موقف کو دہراتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے تمام گروہوں یا عناصر سے مذاکرات ہو سکتے ہیں جو آئین و قانون اور ریاست کو تسلیم کریں۔
پاکستان میں سیاسی و مذہبی جماعتوں کا موقف ہے کہ ایسے وقت جب افغانستان سے غیر ملکی افواج انخلا کی تیاری کر رہی ہیں اور افغان حکومت بھی ملک میں قیام امن کے لیے طالبان اور دیگر متحارب دھڑوں سے مذاکرات پر آمادہ ہے تو پاکستان کو بھی شدت پسندی کے خاتمے کے لیے بات چیت کا راستہ اپنانا چاہیئے۔