افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں پاکستانی فوج کی بھرپور کارروائی "ضرب عضب" میں اب تک 910 دہشت گردوں کو ہلاک کیا جا چکا ہے۔
بدھ کو پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ’آئی ایس پی آر‘ کی طرف سے جاری ایک بیان میں بتایا گیا کہ فوجی آپریشن میں دیسی ساختہ بم بنانے والی 27 فیکٹریوں، ایک راکٹ ساز اور ایک اسلحہ تیار کرنے والے کارخانے کو بھی تباہ کر دیا گیا۔
بیان کے مطابق شمالی وزیرستان میں میران شاہ، میر علی، دتہ خیل، بویا اور دیگان کے علاقوں سے شدت پسندوں کا صفایا کر دیا گیا جب کہ 88 کلومیٹر طویل کجھوری، میرعلی، میران شاہ، دتہ خیل روڈ کو بھی کلیئر کر دیا گیا ہے۔
پاکستانی فوج نے 15 جون کو شمالی وزیرستان میں ملکی و غیر ملکی شدت پسندوں کے خلاف بھرپور کارروائی کا آغاز کیا تھا اور حکام کے بقول یہ آپریشن کامیابی سے جاری ہے۔
بیان کے مطابق آپریشن شروع ہونے کے بعد سے اب تک 82 سکیورٹی اہلکار ہلاک اور 269 زخمی ہوئے۔ ان میں سے 42 شمالی وزیرستان، 23 مختلف قبائلی ایجنسیوں اور 17 ملک کے مختلف علاقوں بشمول کراچی اور بلوچستان میں ہلاک ہوئے۔
قبائلی علاقوں میں ذرائع ابلاغ کی رسائی نہ ہونے کی وجہ سے یہاں ہونے والے واقعات کی آزاد ذرائع سے تصدیق تقریباً ناممکن ہے۔
آئی ایس پی آر کے بیان میں مزید بتایا گیا کہ آپریشن ضرب عضب شروع ہونے کے بعد کسی بھی ممکنہ ردعمل سے بچنے کے لیے انٹیلی جنس اداروں کی مدد سے ملک بھر میں 2274 آپریشن کیے گئے جن میں 42 مشتبہ دہشت گردوں کو ہلاک اور 114 شدت پسندوں کو حراست میں لیا گیا۔
پاکستان کو گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے دہشت گردی و انتہا پسندی کا سامنا رہا اور انسداد دہشت گردی کی جنگ میں ہراول دستے کا کردار ادا کرنے والے اس ملک میں سیکورٹی اہلکاروں سمیت 50 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
نواز شریف انتظامیہ نے رواں سال کے اوائل میں قبائلی علاقے میں موجود کالعدم تحریک طالبان کے شدت پسندوں سے مذاکرات کے ذریعے ملک میں امن و امان کے قیام کی کوشش کی تھی لیکن یہ سلسلہ جلد ہی تعطل کا شکار ہو گیا۔
شدت پسندوں کی طرف سے آٹھ جون کو ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر حملے کے بعد عسکریت پسندوں کے خلاف بھرپور کارروائی شروع کی گئی۔
فوجی کارروائی شروع ہونے کے بعد پاکستان میں دہشت گردانہ واقعات میں قابل ذکر حد تک کمی دیکھی گئی ہے۔
آپریشن کی وجہ سے شمالی وزیرستان سے تقریباً چھ لاکھ لوگ نقل مکانی کر کے خیبر پختونخواہ کے مختلف بندوبستی علاقوں میں عارضی طور پر مقیم ہوئے جن کی دیکھ بھال کے لیے حکومت اور فوج نے مختلف اقدامات کر رکھے ہیں۔