پاکستان میں طویل عرصے سے انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں کی جانب سے مذہبی آزادی اور ملک میں آباد دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کو برابر کے حقوق نا ملنے پر تشویش کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔
گزشتہ ہفتے امریکی محکمۂ خارجہ کی طرف سے جاری کردہ سالانہ رپورٹ میں دنیا بھر میں مذہبی آزادی اور حقوق سے متعلق صورت حال میں ابتری ظاہر کی گئی تھی اور خاص طور پر مسلمان ممالک میں توہین مذہب سے متعلق قوانین کے استعمال کے طریقہ کار پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔
امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان بھی ایسے ممالک میں شامل ہے جہاں توہین مذہب سے متعلق سخت قوانین نافذ ہیں اور انھی قوانین کے باعث پاکستان میں اس وقت 40 افراد توہینِ مذہب کے الزام میں سزائے موت کے منتظر ہیں۔ رپورٹ کے مطابق توہین مذہب سے متعلق مقدمات میں سزا پانے والے افراد میں اکثریت کا تعلق اقلیتی برادریوں سے ہے۔
تاہم حکومت میں شامل عہدیدار یہ کہتے رہے ہیں کہ ملک میں توہین مذہب کے قانون کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔
پاکستان کی قومی اسمبلی میں پارسی برادری کے نمائندے اسفن یار بھنڈارا کہتے ہیں کہ اب بھی ملک میں اقلیتی برادریوں کو مساوی حقوق کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے۔
’’اقلیتوں کو قومی دھارے میں ہمیں لانا چاہیئے جو کہ ہم اتنا نہیں لا سکے ہیں اور صرف ہمیں زبانی جمع خرچ یا کاغذوں میں نہیں لانا چاہیئے اس کام کو عملی شکل دینی چاہیئے۔۔۔۔ میں ایک غیر مسلم ہوں ہمارا یہ گھر ہے جتنے بھی ہم مسائل کا سامنا کرتے ہیں۔۔۔۔ مسائل ہر جگہ ہوتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں ہے کہ ہم پیارا پاکستان چھوڑ کر چلے جائیں۔‘‘
پاکستان کی قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے رکن معین وٹو کہتے ہیں کہ مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو انفرادی طور پر تو مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے لیکن اُن کے بقول بحیثیت مجموعی ایسا نہیں ہے۔
’’حکومت کی طرف سے اقلیتوں کو پورے حقوق حاصل ہیں جو تمام باقی پاکستانیوں کو ہیں ۔۔۔۔ وہ بھی اُسی طرح قابل احترام ہیں اور اُسی طرح وہی مقام اور حیثیت رکھتے ہیں وہی عزت اور وقار رکھتے ہیں۔۔۔۔ جہاں بھی اقلیتوں کا کوئی بل آتا ہے جہاں بھی کوئی ایسا مسئلہ آتا ہے تو ممبران کی طرف سے اور حکومت کی طرف سے اس کی پوری طرح حوصلہ افزائی بھی کی جاتی ہے اور سپورٹ بھی کی جاتی ہے۔‘‘
نیشنل کمیشن آن ہیومین رائٹس کے سربراہ جسٹس ریٹائرڈ علی نواز چوہان کہتے ہیں کہ حال ہی میں پارلیمان کی کمیٹیوں میں ایسی تجاویز بھی سامنے آئی ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ ملک میں توہین مذہب کے قوانین کے غلط استعمال کو روکنے کو یقینی بنایا جائے۔
’’ہم نے یہی زور دیا ہے کہ اس کے جو طریقہ کار ہیں وہ اس قدر سخت ہوں کہ اس کا غلط استعمال نہ ہو۔۔۔۔ (توہین مذہب کے قانون کو) مسلمان مسلمانوں کے خلاف بھی استعمال کر رہے ہیں نا کہ اقلیتوں کے خلاف۔۔۔ میرے خیال میں ایک فضا اچھی بن رہی ہے اور چیزیں ٹھیک ہو جائیں گی۔‘‘
حکومت میں شامل عہدیداروں کا کہنا ہے نچلی سطح سے لے کر پارلیمان تک تمام سطحوں پر پاکستان میں آباد دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کے نمائندے موجود ہیں اور وہ اپنے حقوق کے لیے بلا خوف و خطر آواز بلند کر سکتے ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف نے بھی اپنے ایک حالیہ بیان میں اس عزم کا اظہار کیا کہ پاکستان میں آباد تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کو بلا امتیاز مساوی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا۔