پاکستان کے ضلع سوات سے تعلق رکھنے والے سکھ رہنما اور سابق ممبر خیبرپختونخوا اسمبلی بلدیو کمار نے بھارت میں سیاسی پناہ کے لیے درخواست دائر کر دی ہے۔ بلدیو کمار لگ بھگ ایک ماہ قبل بھارت گئے تھے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق بلدیو کمار نے بھارت میں منگل کو ایک پریس کانفرنس کی، جس میں انہوں نے پاکستان میں غیر مسلم اقلیتوں کے ساتھ زیادتیوں کا الزام لگایا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسی بنیاد پر وہ بھارت میں مستقل رہائش کی اجازت اور سیاسی پناہ کی درخواست بھی دے چکے ہیں۔
بلدیو کمار نے بھارتی نشریاتی اداروں کو انٹرویو دیتے ہوئے پاکستان کے خلاف الزامات عائد کیے۔ انہوں نے خصوصی طور پر سکھ برادری کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں سکھ کمیونٹی کو حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہے۔
سابق رکن صوبائی اسمبلی کی جانب سے لگائے گئے ان الزامات کے بعد سوات میں بلدیو کمار کے بھائی اور دیگر رشتہ داروں نے ایک ہنگامی پریس کانفرنس منعقد کی جس میں انہوں نے بلدیو کے الزامات کو مسترد کر دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ہمارا ملک ہے اور یہاں رہنے والے ہندوؤں اور سکھ برادری کے لوگوں کو مسلمانوں کے مساوی حقوق حاصل ہیں۔
خیال رہے کہ بلدیو کمار پاکستان تحریک انصاف کے اقلیتی رکن رہ چکے ہیں جب کہ وہ سابق وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک کے مشیر سورن سنگھ کے قتل کے الزام میں جیل بھی جا چکے ہیں۔
بلدیو کمار کے بھائی تلک کمار نے کہا ہے کہ پاکستان میں سکھوں اور ہندوؤں کو تمام حقوق مل رہے ہیں۔
انہوں نے بلدیو کمار کی جانب سے پاکستان پر لگائے گئے تمام الزامات کو جھوٹ اور من گھڑت قرار دیا۔
دوسری جانب خیبر پختونخوا کے وزیرِ اطلاعات شوکت یوسفزئی نے بلدیو کمار کی سیاسی پناہ کی ردخواست پر ردِّ عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ بلدیو کمار سے تحریکِ انصاف کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان تحریکِ انصاف میں جرائم پیشہ لوگوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ بلدیو کمار جہاں رہنا چاہتے ہیں، وہاں رہ لیں۔