پشاور —
پاکستان کے قبائلی علاقے مہمند میں ہفتہ کو سڑک میں نصب ایک بم پھٹنے سے کم از کم چھ سکیورٹی اہلکار ہلاک ہو گئے۔
فوج کے مطابق یہ واقعہ تحصیل پنڈیالے کے گاؤن شاتی میں پیش آیا۔ یہاں ایک اسکول کو مشتبہ شدت پسندوں کی طرف سے دھماکا خیز مواد سے اڑائے جانے کے بعد سکیورٹی فورسز علاقے میں تلاش کی کارروائیوں میں مصروف تھیں کہ ان کی ایک گاڑی سڑک میں نصب بم سے ٹکرا گئی۔
تاحال کسی نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے تاہم شدت پسند اس سے قبل بھی سکیورٹی فورسز کو نشانہ بناتے آئے ہیں جب کہ گزشتہ ہفتے بھی مہمند ہی میں سکیورٹی فورسز کے ایک قافلے پر حملے کی کوشش کی گئی تھی۔
فوج نے شدت پسندوں کے خلاف قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں گزشتہ تین روز سے ٹارگٹڈ کارروائی شروع کر رکھی ہیں جن میں کم از کم 75 سے زائد شدت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا جا چکا ہے۔
ان کارروائیوں میں جیٹ طیاروں اور گن شپ ہیلی کاپٹروں سے شدت پسندوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔
سیکورٹی ذرائع کے مطابق بدھ کو شمالی وزیرستان میں ہونے والی فضائی کارروائی میں پانچ عسکریت پسند کمانڈر بھی مارے گئے۔
افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقوں میں ذرائع ابلاغ کی رسائی نہ ہونے کی وجہ سے یہاں ہونے والے جانی نقصانات کی آزاد ذرائع سے تصدیق تقریباً ناممکن ہے۔
حکومت نے رواں سال کے اوائل میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے مذاکراتی عمل شروع کیا تھا جو کہ فی الحال تعطل کا شکار ہے۔
سکیورٹی فورسز کی ٹارگٹڈ کارروائیوں پر وفاقی وزیراطلاعات پرویز رشید کا کہنا ہے کہ ملک کی سلامتی کو جہاں سے بھی خطرہ ہوگا اس کا جواب اسی زبان میں دیا جائے جو زبان سمجھی جاتی ہے۔
"اگر کوئی مذاکرات کرنا چاہتا ہے تو ویلکم، دروازے کھلے ہیں اور جو مذاکرات نہیں چاہتا اور جنگ کرنا چاہتا ہے تو اسی زبان میں اس کو بھی جواب دے دیا جائے گا۔۔۔ طالبان میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جنہوں نے مذاکرات کیے ہیں اور اس عمل کو کبھی منقطع نہیں کیا کچھ لوگ ہیں جو مذاکرات نہیں کرنا چاہتے تو جو جس طرح کا ہے جس رنگ میں کوئی چاہتا ہے اس رنگ کے ساتھ اسے دیکھ لیں گے۔"
طالبان کے مختلف دھڑوں میں تحریک کی امارات اور حکومت کے ساتھ مذاکرات کے معاملے پر اختلافات بھی سامنے آچکے ہیں اور حالیہ ہفتوں میں شمالی وزیرستان میں طالبان کے آپسی جھگڑوں میں درجنوں افراد مارے جا چکے ہیں۔
دریں اثںاء سوات کی خواتین کے ایک جرگے نے ملک میں امن کے قیام کے لیے حکومت اور طالبان سے مذاکراتی عمل شروع کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
سیدو شریف میں ہونے والے 25 رکنی جرگے نے امن و امان کی موجودہ صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ طاقت کے استعمال سے مسئلے کا حل تلاش کرنے کی بجائے بات چیت کے ذریعے معاملے کو حل کیا جائے۔
فوج کے مطابق یہ واقعہ تحصیل پنڈیالے کے گاؤن شاتی میں پیش آیا۔ یہاں ایک اسکول کو مشتبہ شدت پسندوں کی طرف سے دھماکا خیز مواد سے اڑائے جانے کے بعد سکیورٹی فورسز علاقے میں تلاش کی کارروائیوں میں مصروف تھیں کہ ان کی ایک گاڑی سڑک میں نصب بم سے ٹکرا گئی۔
تاحال کسی نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے تاہم شدت پسند اس سے قبل بھی سکیورٹی فورسز کو نشانہ بناتے آئے ہیں جب کہ گزشتہ ہفتے بھی مہمند ہی میں سکیورٹی فورسز کے ایک قافلے پر حملے کی کوشش کی گئی تھی۔
فوج نے شدت پسندوں کے خلاف قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں گزشتہ تین روز سے ٹارگٹڈ کارروائی شروع کر رکھی ہیں جن میں کم از کم 75 سے زائد شدت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا جا چکا ہے۔
ان کارروائیوں میں جیٹ طیاروں اور گن شپ ہیلی کاپٹروں سے شدت پسندوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔
سیکورٹی ذرائع کے مطابق بدھ کو شمالی وزیرستان میں ہونے والی فضائی کارروائی میں پانچ عسکریت پسند کمانڈر بھی مارے گئے۔
افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقوں میں ذرائع ابلاغ کی رسائی نہ ہونے کی وجہ سے یہاں ہونے والے جانی نقصانات کی آزاد ذرائع سے تصدیق تقریباً ناممکن ہے۔
حکومت نے رواں سال کے اوائل میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے مذاکراتی عمل شروع کیا تھا جو کہ فی الحال تعطل کا شکار ہے۔
سکیورٹی فورسز کی ٹارگٹڈ کارروائیوں پر وفاقی وزیراطلاعات پرویز رشید کا کہنا ہے کہ ملک کی سلامتی کو جہاں سے بھی خطرہ ہوگا اس کا جواب اسی زبان میں دیا جائے جو زبان سمجھی جاتی ہے۔
"اگر کوئی مذاکرات کرنا چاہتا ہے تو ویلکم، دروازے کھلے ہیں اور جو مذاکرات نہیں چاہتا اور جنگ کرنا چاہتا ہے تو اسی زبان میں اس کو بھی جواب دے دیا جائے گا۔۔۔ طالبان میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جنہوں نے مذاکرات کیے ہیں اور اس عمل کو کبھی منقطع نہیں کیا کچھ لوگ ہیں جو مذاکرات نہیں کرنا چاہتے تو جو جس طرح کا ہے جس رنگ میں کوئی چاہتا ہے اس رنگ کے ساتھ اسے دیکھ لیں گے۔"
طالبان کے مختلف دھڑوں میں تحریک کی امارات اور حکومت کے ساتھ مذاکرات کے معاملے پر اختلافات بھی سامنے آچکے ہیں اور حالیہ ہفتوں میں شمالی وزیرستان میں طالبان کے آپسی جھگڑوں میں درجنوں افراد مارے جا چکے ہیں۔
دریں اثںاء سوات کی خواتین کے ایک جرگے نے ملک میں امن کے قیام کے لیے حکومت اور طالبان سے مذاکراتی عمل شروع کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
سیدو شریف میں ہونے والے 25 رکنی جرگے نے امن و امان کی موجودہ صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ طاقت کے استعمال سے مسئلے کا حل تلاش کرنے کی بجائے بات چیت کے ذریعے معاملے کو حل کیا جائے۔