فاروق ستار کی قیادت میں ’ایم کیو ایم‘ یعنی متحدہ قومی موومنٹ کے ایک وفد نے وزیراعظم نواز شریف سے پیر کو اسلام آباد میں ملاقات کی اور انہیں کراچی آپریشن کے بارے اپنے نقطہ نظر سے آگاہ کیا۔
قومی اسمبلی، سینیٹ اور سندھ اسمبلی سے اپنے اراکین کے اجتماعی استعفوں کے بعد ایم کیو ایم کی وزیراعظم نواز شریف سے پہلی براہ راست ملاقات تھی۔
اس سے قبل پیر ہی کو ایم کیو ایم کے وفد نے مولانا فضل الرحمٰن سے بھی ملاقات کی۔
ایم کیو ایم نے کراچی میں جاری آپریشن کے دوران مبینہ طور پر اپنی جماعت کے کارکنوں کو نشانہ بنائے جانے کے خلاف احتجاجاً 12 اگست کو پارلیمان کے دونوں ایوانوں اور سندھ اسمبلی سے استعفے دے دیے تھے۔
تاہم ایم کیو ایم کے استعفوں کو قبول نہیں کیا گیا اور وزیراعظم نے اس معاملے کو سلجھانے کے لیے پارلیمانی رہنماؤں کا اجلاس طلب کیا تھا جس میں مولانا فضل الرحمٰن کو ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ ایم کیو ایم کے رہنماؤں سے ملاقات کر کے انہیں استعفے واپس لینے پر قائل کریں۔
مولانا فضل الرحمٰن نے گزشتہ ہفتے کراچی میں ایم کیو ایم کے رہنماؤں سے ملاقات کی مگر اسی روز متحدہ قومی موومنٹ کے ایک رہنما رشید گوڈیل پر قاتلانہ حملے سے حالات میں کشیدگی پیدا ہو گئی۔ رشید گوڈیل اس حملے میں شدید زخمی ہو گئے تھے اور تاحال انتہائی نگہداشت وارڈ میں زیر علاج ہیں۔
ایم کیو ایم نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ حکومت نے استعفوں کے بعد بھی اُس کے تحفظات کا خاطر خواہ جواب نہیں دیا۔ تاہم وزیر اعظم سے ملاقات کے بعد امید ہے کہ اس مسئلے کو افہام و تفہیم سے سلجھایا جا سکے گا۔
ایم کیو ایم پر طویل عرصہ سے الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ کراچی میں امن و امان کی خراب صورت حال میں اُس کے کارکن ملوث ہیں۔
تاہم متحدہ قومی موومنٹ ان الزامات کی تردید کرتی رہی ہے اور کہتی رہی ہے کہ وہ سندھ کے شہری علاقوں کے عوام کی نمائندہ جماعت ہے اور اصولی سیاست پر یقین رکھتی ہے۔
اگرچہ حکومت ایم کیو ایم سے استعفوں کے معاملے پر مذاکرات کر رہی ہے مگر کراچی آپریشن کی حکمت عملی میں کسی بڑی تبدیلی کی توقع نہیں۔ پیر کو کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ کراچی کے عوام آپریشن سے بہت خوش ہیں اور اس کا سب سے زیادہ فائدہ خود ایم کیو ایم کو پہنچے گا۔