پاکستان میں انتہائی سخت حفاظتی انتظامات میں یوم عاشور منایا گیا اور منگل کی صبح ملک بھر کے چھوٹے بڑے شہروں میں ماتمی جلوس برآمد ہوئے جو اپنے مقررہ راستوں سے ہوتے ہوئے شام گئے اختتام پذیر ہوئے۔
ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی یا تصادم اور کسی بھی ممکنہ دہشت گردانہ کارروائی سے بچنے کے لیے جہاں ہزاروں کی تعداد میں پولیس، ایف سی، رینجرز اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اضافی اہلکار تعینات کیے گئے وہیں حساس علاقوں میں فوج کو بھی چوکس رکھا گیا۔
پاکستانی وزارت داخلہ کے ایک بیان کے مطابق 54 اضلاع میں فوج، رینجرز، فرنٹئیر کور اور فرنٹئیر کانسٹیبلری کے 32695 اہلکار صوبائی حکومتوں کی معاونت کے لیے تعینات کیے گئے۔
جب کہ 12 ہیلی کاپٹر فضائی نگرانی کے لیے مختص کیے گئے۔
وزارت داخلہ میں ایک کنٹرول روم بھی قائم کیا گیا جہاں سے ماتمی جلوسوں کی نگرانی اور صوبائی حکومتوں سے مسلسل رابطہ رکھا گیا۔
جب کہ انٹیلی جنس اداروں سے مسلسل رابطہ بھی قائم رہا تاکہ مخصوص خطرات سے متعلق معلومات کی بنیاد پر بروقت کارروائی کی جا سکے۔
وزیراعظم نواز شریف نے پاکستانیوں سے اپیل کہ وہ محرم الحرام اور بالخصوص یوم عاشور پر امن وامان قائم رکھنے کے لیے حکومت کا ساتھ دیں۔
مختلف شہروں بشمول کراچی، کوئٹہ، پشاور، لاہور اور راولپنڈی میں موبائل فون سروس دن بھر عارضی اور جزوی طور پر معطل رہی جو بعد ازاں بحال ہونا شروع ہو گئی۔
جلوس کے راستوں کے اطراف خاردار تاریں اور دیگر رکاوٹیں کھڑی کر کے غیر متعلقہ آمدورفت کو بند کر دیا گیا تھا جب کہ عزاداری میں شرکت کے لیے آنے والوں کو بھی جامہ تلاشی کے بعد جلوس میں شامل ہونے دیا گیا۔
سندھ پولیس کے سربراہ غلام حیدر جمالی نے کہا کہ جن راستوں سے جلوس نے گزرنا تھا اُن کی کڑی نگرانی کی جاتی رہی۔
’’چھتوں پر اور حساس علاقوں میں ہم نے ماہر نشانہ باز بھی تعینات کیے۔‘‘
کراچی ساؤتھ کے اعلی پولیس افسر عبدالخالق شیخ نے کہا کہ اس مرتبہ دہشت گردی کا خطرہ زیادہ تھا اس لیے ماتمی جلوس کے خاتمے پر شرکا کی گھروں کو واپسی کے دوران بھی شہر بھر میں سیکورٹی اہلکار چوکس رہیں گے۔
پاکستان میں ماضی میں شیعہ مسلک کے افراد کے ماتمی جلوسوں پر جان لیوا بم حملوں کے علاوہ فرقہ وارانہ تصادم کے واقعات پیش آچکے ہیں جس کی وجہ سے محرم کے پہلے دس روز خاص طور پر انتہائی حساس تصور کیے جاتے ہیں۔
گزشتہ سال یوم عاشور کے موقع پر وفاقی دارالحکومت سے ملحقہ شہر راولپنڈی کے مصروف تجارتی مرکز راجہ بازار میں ہونے والے فرقہ وارانہ تصادم میں کم ازکم 11 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے تھے جب کہ بعدازاں املاک کو نذر آتش کیے جانے سے کروڑوں روپے کا نقصان بھی ہوا۔
حالات اس حد تک کشیدہ ہوگئے تھے کہ علاقے میں فوج طلب کر کے کرفیو بھی نافذ کرنا پڑا۔
واقعے کے بعد اس ایک سال کے دوران اسلام آباد سمیت ملک کے مختلف علاقوں میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر متعدد شیعہ اور سنی علما کو ہدف بنا کر قتل کیا جا چکا ہے۔
ماضی میں چاروں صوبائی دارالحکومتوں کے علاوہ شمال مغربی صوبے خیبر پختونخواہ کے جنوبی ضلع ہنگو میں بھی محرم کے دوران ہلاکت خیز واقعات دیکھے گئے۔
حکومت کے علاوہ مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے علما نے لوگوں پر زور دیا ہے کہ وہ مختلف مسالک اور مذاہب کے درمیان ہم آہنگی کو فروغ دے کر ایسے عناصر کی کوششوں کو ناکام بنائیں جو ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی کو بڑھاوا دینا چاہتے ہیں۔