اسلام آباد —
پاکستان کے سابق فوجی صدر پرویز مشرف منگل کو غداری کیس کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت میں پیش ہوئے، تاہم اُن کے خلاف فرد جرم عائد نہیں کی گئی۔
پرویز مشرف کے ایک وکیل احمد رضا قصوری نے خصوصی عدالت کی کارروائی کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا کہ سابق صدر کی عدالت میں پیشی سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ اُن کے موکل عدلیہ کا احترام کرتے ہیں۔
احمد رضا قصوری نے کہا کہ عدالت کو پہلے اُن درخواستوں کا فیصلہ کرنا ہے جن میں خصوصی عدالت کی تشکیل پر اعتراضات اٹھائے گئے ہیں۔
’’جمعہ کو وہ یہ فیصلہ کریں کہ اس عدالت کے پاس مقدمے کی سماعت کا اختیار ہے یا نہیں..... (خصوصی عدالت) کے جج نے کہا کہ اگر یہ فیصلہ ہوا کہ اس خصوصی عدالت کو مقدمے کا اختیار ہے تو پھر پرویز مشرف کو دوبارہ بلایا جائے گا اور اُن کے خلاف فرد جرم عائد کی جائے گی۔‘‘
خصوصی عدالت میں پیشی کے بعد سابق صدر دوبارہ راولپنڈی میں عسکری ادارہ برائے امراض قلب پہنچ گئے جہاں وہ زیر علاج ہیں۔
اس موقع پر سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے تھے۔ عدالت نے سابق صدر کو منگل کے روز بینچ کے سامنے پیش ہونے کا حکم دے رکھا تھا بصورت دیگر اُن کے خلاف ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے جانے کا امکان تھا۔
پرویز مشرف کی طرف سے یہ مقدمہ آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالت میں چلائے جانے کی درخواست پر منگل کی صبح ملزم کے وکیل انور منصور نے دلائل مکمل کیے۔
سابق صدر کے خلاف وفاق کی درخواست پر گزشتہ سال 24 دسمبر کو تین ججوں پر مشتمل خصوصی عدالت نے آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت غداری کے مقدمے کی کارروائی شروع کی تھی تاہم اس سے قبل پرویز مشرف کسی ایک بھی سماعت میں عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔
31 جنوری کو عدالت نے ان کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔
پرویز مشرف دو جنوری کو اسلام آباد میں اپنی رہائش گاہ سے عدالت جاتے ہوئے اچانک سینے میں تکلیف کے باعث راولپنڈی میں فوج کے زیرانتظام امراض قلب کے ایک اسپتال منتقل ہو گئے تھے جہاں وہ اب تک زیر علاج ہیں۔
سکیورٹی حکام کے مطابق منگل کو سابق صدر کی عدالت میں پیشی کے تناظر میں سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے۔
ایک ہزار سے زائد سکیورٹی اہلکاروں کو راولپنڈی کے اسپتال سے اسلام آباد کی نیشنل لائبریری میں قائم خصوصی عدالت تک جانے والے دو مختلف راستوں پر تعینات کیا گیا تھا۔
پرویز مشرف کے ایک وکیل احمد رضا قصوری نے خصوصی عدالت کی کارروائی کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا کہ سابق صدر کی عدالت میں پیشی سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ اُن کے موکل عدلیہ کا احترام کرتے ہیں۔
احمد رضا قصوری نے کہا کہ عدالت کو پہلے اُن درخواستوں کا فیصلہ کرنا ہے جن میں خصوصی عدالت کی تشکیل پر اعتراضات اٹھائے گئے ہیں۔
’’جمعہ کو وہ یہ فیصلہ کریں کہ اس عدالت کے پاس مقدمے کی سماعت کا اختیار ہے یا نہیں..... (خصوصی عدالت) کے جج نے کہا کہ اگر یہ فیصلہ ہوا کہ اس خصوصی عدالت کو مقدمے کا اختیار ہے تو پھر پرویز مشرف کو دوبارہ بلایا جائے گا اور اُن کے خلاف فرد جرم عائد کی جائے گی۔‘‘
خصوصی عدالت میں پیشی کے بعد سابق صدر دوبارہ راولپنڈی میں عسکری ادارہ برائے امراض قلب پہنچ گئے جہاں وہ زیر علاج ہیں۔
اس موقع پر سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے تھے۔ عدالت نے سابق صدر کو منگل کے روز بینچ کے سامنے پیش ہونے کا حکم دے رکھا تھا بصورت دیگر اُن کے خلاف ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے جانے کا امکان تھا۔
پرویز مشرف کی طرف سے یہ مقدمہ آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالت میں چلائے جانے کی درخواست پر منگل کی صبح ملزم کے وکیل انور منصور نے دلائل مکمل کیے۔
سابق صدر کے خلاف وفاق کی درخواست پر گزشتہ سال 24 دسمبر کو تین ججوں پر مشتمل خصوصی عدالت نے آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت غداری کے مقدمے کی کارروائی شروع کی تھی تاہم اس سے قبل پرویز مشرف کسی ایک بھی سماعت میں عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔
31 جنوری کو عدالت نے ان کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔
پرویز مشرف دو جنوری کو اسلام آباد میں اپنی رہائش گاہ سے عدالت جاتے ہوئے اچانک سینے میں تکلیف کے باعث راولپنڈی میں فوج کے زیرانتظام امراض قلب کے ایک اسپتال منتقل ہو گئے تھے جہاں وہ اب تک زیر علاج ہیں۔
سکیورٹی حکام کے مطابق منگل کو سابق صدر کی عدالت میں پیشی کے تناظر میں سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے۔
ایک ہزار سے زائد سکیورٹی اہلکاروں کو راولپنڈی کے اسپتال سے اسلام آباد کی نیشنل لائبریری میں قائم خصوصی عدالت تک جانے والے دو مختلف راستوں پر تعینات کیا گیا تھا۔