اسلام آباد —
پاکستان کے سابق فوجی صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کو ان کے خلاف زیرِا لتوا تمام چار مقدمات میں ضمانت منظور ہونے کے بعد بدھ کو رہا کر دیا گیا ہے۔
اسلام آباد کی لال مسجد کے نائب خطیب عبدالرشید غازی کی ہلاکت سے متعلق آخری مقدمے میں سابق صدر کی پیر کو ضمانت منظور ہوئی تھی اور عدالت کے حکم پر پرویز مشرف کی رہائی کے لیے بدھ کو ایک، ایک لاکھ روپے کے دو ضمانتی مچلکے جمع کرادیے گئے تھے۔
پرویز مشرف وفاقی دارالحکومت میں موجود اپنے فارم ہاؤس میں گزشتہ چھ ماہ سے قید تھے جسے انتظامیہ نے سب جیل قرار دے رکھا تھا۔
لیکن عدالت کے احکامات پر عمل درآمد ہونے کے بعد بدھ اُن کے فارم ہاؤس کے باہر سے اضافی رکاوٹیں ہٹا دی گئی ہیں۔
سابق صدر کے وکیل الیاس صدیقی نے بدھ کو صحافیوں سے گفتگو میں کہا تھا کہ ’’(پرویز مشرف) کے خلاف چار مقدمے تھے اور اُن سب میں ان کی ضمانت ہو گئی ہے۔ ضمانت ہونے کے بعد وہ اب آزاد شہری ہیں۔‘‘
لیکن سابق صدر کا نام اب بھی 'ایگزٹ کنٹرول لسٹ' میں شامل ہے جس کے باعث وہ ملک سے باہر نہیں جاسکتے۔
واضح رہے کہ جولائی 2007ء میں ہونے والے ایک فوجی آپریشن میں لال مسجد کے نائب خطیب عبد الرشید غازی اور فوجی کمانڈوز سمیت لگ بھگ 100 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
عبد الرشید غازی کے بیٹے ہارون الرشید نے سابق صدر کے خلاف مقدمہ درج کروایا تھا جس میں یہ موقف اختیار کیا گیا تھا کہ بطور فوج کے سربراہ پرویز مشرف نے اُن کے والد کو قتل کرنے کے احکامات جاری کیے تھے۔
پرویز مشرف کی ترجمان آسیہ اسحاق نے 'وائس آف امریکہ' سے گفتگو میں کہا کہ اب کیوں کہ اُن کی جماعت کے سربراہ کی تمام مقدمات میں ضمانت منظور ہو چکی ہے اس لیے اب وہ عملی سیاست میں حصہ لیں گے۔
’’ہم سڑکوں پر آئیں گے، ہم عوام کے ساتھ رابطہ مہم کو تیز کرنے کے لیے جائیں گے۔ پرویز مشرف عوام کے ساتھ کھڑا ہونے کے لیے یہاں آئے ہیں۔‘‘
آسیہ اسحاق نے کہا کہ ملک چھوڑنے پر پابندی کے بارے میں پرویز مشرف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکلوانے کے لیے اُن کی جماعت عدالت سے رجوع کرے گی۔
پرویز مشرف کو سابق وزیرِ اعظم بے نظیر بھٹو اور قوم پرست بلوچ رہنما اکبر بگٹی کے قتل کے علاوہ 2007ء میں ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد اعلٰی عدلیہ کے ججوں کی نظر بندی کے مقدمات کا بھی سامنا ہے، تاہم ان میں پہلے ہی اُن کی ضمانت کی درخواستیں منظور کی جا چکی ہیں۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ 2007ء میں ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد آئین معطل کرنے کے الزام میں پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے سے متعلق تحقیقات کے لیے بھی وفاقی حکومت نے حکم دے رکھا ہے۔
مئی 2013ء کے انتخابات میں حصہ لینے کے لیے پرویز مشرف مارچ میں وطن واپس پہنچے جہاں اُنھیں مختلف مقدمات میں اپریل میں گرفتار کر لیا گیا جب کہ الیکشن کمیشن نے سابق فوجی صدر کے کاغذاتِ نامزدگی مسترد کرتے ہوئے اُن پر انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی بھی عائد کر دی تھی۔
اسلام آباد کی لال مسجد کے نائب خطیب عبدالرشید غازی کی ہلاکت سے متعلق آخری مقدمے میں سابق صدر کی پیر کو ضمانت منظور ہوئی تھی اور عدالت کے حکم پر پرویز مشرف کی رہائی کے لیے بدھ کو ایک، ایک لاکھ روپے کے دو ضمانتی مچلکے جمع کرادیے گئے تھے۔
پرویز مشرف وفاقی دارالحکومت میں موجود اپنے فارم ہاؤس میں گزشتہ چھ ماہ سے قید تھے جسے انتظامیہ نے سب جیل قرار دے رکھا تھا۔
لیکن عدالت کے احکامات پر عمل درآمد ہونے کے بعد بدھ اُن کے فارم ہاؤس کے باہر سے اضافی رکاوٹیں ہٹا دی گئی ہیں۔
سابق صدر کے وکیل الیاس صدیقی نے بدھ کو صحافیوں سے گفتگو میں کہا تھا کہ ’’(پرویز مشرف) کے خلاف چار مقدمے تھے اور اُن سب میں ان کی ضمانت ہو گئی ہے۔ ضمانت ہونے کے بعد وہ اب آزاد شہری ہیں۔‘‘
لیکن سابق صدر کا نام اب بھی 'ایگزٹ کنٹرول لسٹ' میں شامل ہے جس کے باعث وہ ملک سے باہر نہیں جاسکتے۔
واضح رہے کہ جولائی 2007ء میں ہونے والے ایک فوجی آپریشن میں لال مسجد کے نائب خطیب عبد الرشید غازی اور فوجی کمانڈوز سمیت لگ بھگ 100 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
عبد الرشید غازی کے بیٹے ہارون الرشید نے سابق صدر کے خلاف مقدمہ درج کروایا تھا جس میں یہ موقف اختیار کیا گیا تھا کہ بطور فوج کے سربراہ پرویز مشرف نے اُن کے والد کو قتل کرنے کے احکامات جاری کیے تھے۔
پرویز مشرف کی ترجمان آسیہ اسحاق نے 'وائس آف امریکہ' سے گفتگو میں کہا کہ اب کیوں کہ اُن کی جماعت کے سربراہ کی تمام مقدمات میں ضمانت منظور ہو چکی ہے اس لیے اب وہ عملی سیاست میں حصہ لیں گے۔
’’ہم سڑکوں پر آئیں گے، ہم عوام کے ساتھ رابطہ مہم کو تیز کرنے کے لیے جائیں گے۔ پرویز مشرف عوام کے ساتھ کھڑا ہونے کے لیے یہاں آئے ہیں۔‘‘
آسیہ اسحاق نے کہا کہ ملک چھوڑنے پر پابندی کے بارے میں پرویز مشرف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکلوانے کے لیے اُن کی جماعت عدالت سے رجوع کرے گی۔
پرویز مشرف کو سابق وزیرِ اعظم بے نظیر بھٹو اور قوم پرست بلوچ رہنما اکبر بگٹی کے قتل کے علاوہ 2007ء میں ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد اعلٰی عدلیہ کے ججوں کی نظر بندی کے مقدمات کا بھی سامنا ہے، تاہم ان میں پہلے ہی اُن کی ضمانت کی درخواستیں منظور کی جا چکی ہیں۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ 2007ء میں ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد آئین معطل کرنے کے الزام میں پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے سے متعلق تحقیقات کے لیے بھی وفاقی حکومت نے حکم دے رکھا ہے۔
مئی 2013ء کے انتخابات میں حصہ لینے کے لیے پرویز مشرف مارچ میں وطن واپس پہنچے جہاں اُنھیں مختلف مقدمات میں اپریل میں گرفتار کر لیا گیا جب کہ الیکشن کمیشن نے سابق فوجی صدر کے کاغذاتِ نامزدگی مسترد کرتے ہوئے اُن پر انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی بھی عائد کر دی تھی۔