اسلام آباد —
سعودی عرب کے وزیرخارجہ سعود الفیصل نے ان تمام قیاس آرائیوں کو مسترد کیا ہے کہ وہ غداری کے مقدمے میں ملوث پاکستان کے سابق فوجی صدر پرویز مشرف سے متعلق کوئی معاہدہ کروانے کے لیے اسلام آباد آئے ہیں۔
سعودی وزیرخارجہ دو روزہ دورے پر پیر کو اسلام آباد پہنچے تھے اور ان کی آمد سے قبل یہ قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں کہ وہ پرویز مشرف کو پاکستان سے باہر منتقل کرنے کے لیے نوازشریف حکومت سے کسی طرح کا کوئی ’’مفاہمتی معاہدہ‘‘ کرنے آرہے ہیں۔
منگل کو اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سعود الفیصل کا کہنا تھا ’’ان کا ملک کسی بھی ملک کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کی پالیسی پر کاربند ہے خاص طور پر دوست ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرنا ہماری پالیسی کا حصہ ہے۔‘‘
مہمان وزیرخارجہ کا کہنا تھا کہ ان کے دورے کا مقصد دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات اور تعاون کا فروغ تھا نہ کہ کچھ اور۔
پاکستان کے سابق فوجی صدر پرویز مشرف پر ملک کا آئین توڑنے کے الزام میں غداری کا مقدمہ ایک خصوصی عدالت میں زیر سماعت ہے جب کہ وہ ناسازی طبع کی وجہ سےایک فوجی اسپتال میں زیر علاج ہیں۔
منگل کو اس خصوصی عدالت میں پرویز مشرف کے طبی معائنے کی رپورٹس پیش کی گئیں جس کی نقول وکلائے صفائی اور استغاثہ کو فراہم کرتے ہوئے عدالت نے اس بارے میں فیصلہ جمعرات کو سنانے کا کہا۔
ان رپورٹس کی روشنی میں دیے جانے والے دلائل کے بعد عدالت سابق فوجی صدر کو پیشی سے استثنیٰ دینے کا فیصلہ سنائے گی۔
پرویز مشرف کے وکیل احمد رضا قصوری نے عدالت کے باہر صحافیوں کو بتایا کہ طبی تجزیے کی رپورٹ پر ڈاکٹروں سے مشاورت کے بعد دلائل دیے جائیں گے۔
مقامی ذرائع ابلاغ میں پرویز مشرف کی طبی رپورٹس کی بعض تفصیلات سامنے آئی ہیں جن کے مطابق انھیں ریڑھ کی ہڈی اور کندھے کی تکلیف کے علاوہ ان کے خون میں کولیسٹرول کی مقدار بڑھی ہوئی ہے جب کہ شریانوں کی بندش کا بھی خدشہ ہے۔
پرویز مشرف پر تین نومبر 2007ء کو ملک کا آئین معطل کرکے اعلیٰ عدلیہ کے ججزکو نظر بند کرنے کے الزامات ہیں جو کہ وفاق کے بقول آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت غداری کے زمرے میں آتے ہیں۔
وفاقی حکومت کی طرف سے اس مقدمے کی کارروائی کے لیے تین رکنی خصوصی عدالت تشکیل دی گئی تھی جس نے 24 دسمبر سے اپنا کام شروع کیا۔ لیکن پرویز مشرف اس عدالتی کارروائی کی پہلی دو سماعتوں میں سکیورٹی خدشات کے باعث عدالت میں پش نہیں ہوئے جبکہ تیسری پیشی پر عدالت جاتے ہوئے راستے ہی سے انھیں راولپنڈی میں امراض قلب کے ایک فوجی اسپتال منتقل کردیا گیا جس کی وجہ سابق صدر کے سینے میں ہونے والی اچانک تکلیف بتائی گئی۔
ادھر وزارت دفاع کے سیکرٹری آصف یاسین ملک کا کہنا ہے کہ فوج کا پرویز مشرف کے غداری کیس سے کوئی تعلق نہیں۔ اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو میں انھوں نے یہ کہہ کر اس پر مزید بات کرنے سے گریز کیا کہ یہ معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ فوج کے کسی سابق سربراہ پر غداری کا مقدمہ قائم کرکے عدالتی کارروائی شروع کی گئی۔ پرویز مشرف گزشتہ ماہ متعدد بار مقامی و بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کو دیے گئے انٹرویوز میں یہ کہہ چکے ہیں کہ پاکستانی فوج ان پر قائم غداری کے مقدمے پر ناخوش ہے اور انھیں پوری فوج کی حمایت حاصل ہے۔
سعودی وزیرخارجہ دو روزہ دورے پر پیر کو اسلام آباد پہنچے تھے اور ان کی آمد سے قبل یہ قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں کہ وہ پرویز مشرف کو پاکستان سے باہر منتقل کرنے کے لیے نوازشریف حکومت سے کسی طرح کا کوئی ’’مفاہمتی معاہدہ‘‘ کرنے آرہے ہیں۔
منگل کو اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سعود الفیصل کا کہنا تھا ’’ان کا ملک کسی بھی ملک کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کی پالیسی پر کاربند ہے خاص طور پر دوست ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرنا ہماری پالیسی کا حصہ ہے۔‘‘
مہمان وزیرخارجہ کا کہنا تھا کہ ان کے دورے کا مقصد دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات اور تعاون کا فروغ تھا نہ کہ کچھ اور۔
پاکستان کے سابق فوجی صدر پرویز مشرف پر ملک کا آئین توڑنے کے الزام میں غداری کا مقدمہ ایک خصوصی عدالت میں زیر سماعت ہے جب کہ وہ ناسازی طبع کی وجہ سےایک فوجی اسپتال میں زیر علاج ہیں۔
منگل کو اس خصوصی عدالت میں پرویز مشرف کے طبی معائنے کی رپورٹس پیش کی گئیں جس کی نقول وکلائے صفائی اور استغاثہ کو فراہم کرتے ہوئے عدالت نے اس بارے میں فیصلہ جمعرات کو سنانے کا کہا۔
ان رپورٹس کی روشنی میں دیے جانے والے دلائل کے بعد عدالت سابق فوجی صدر کو پیشی سے استثنیٰ دینے کا فیصلہ سنائے گی۔
پرویز مشرف کے وکیل احمد رضا قصوری نے عدالت کے باہر صحافیوں کو بتایا کہ طبی تجزیے کی رپورٹ پر ڈاکٹروں سے مشاورت کے بعد دلائل دیے جائیں گے۔
مقامی ذرائع ابلاغ میں پرویز مشرف کی طبی رپورٹس کی بعض تفصیلات سامنے آئی ہیں جن کے مطابق انھیں ریڑھ کی ہڈی اور کندھے کی تکلیف کے علاوہ ان کے خون میں کولیسٹرول کی مقدار بڑھی ہوئی ہے جب کہ شریانوں کی بندش کا بھی خدشہ ہے۔
پرویز مشرف پر تین نومبر 2007ء کو ملک کا آئین معطل کرکے اعلیٰ عدلیہ کے ججزکو نظر بند کرنے کے الزامات ہیں جو کہ وفاق کے بقول آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت غداری کے زمرے میں آتے ہیں۔
وفاقی حکومت کی طرف سے اس مقدمے کی کارروائی کے لیے تین رکنی خصوصی عدالت تشکیل دی گئی تھی جس نے 24 دسمبر سے اپنا کام شروع کیا۔ لیکن پرویز مشرف اس عدالتی کارروائی کی پہلی دو سماعتوں میں سکیورٹی خدشات کے باعث عدالت میں پش نہیں ہوئے جبکہ تیسری پیشی پر عدالت جاتے ہوئے راستے ہی سے انھیں راولپنڈی میں امراض قلب کے ایک فوجی اسپتال منتقل کردیا گیا جس کی وجہ سابق صدر کے سینے میں ہونے والی اچانک تکلیف بتائی گئی۔
ادھر وزارت دفاع کے سیکرٹری آصف یاسین ملک کا کہنا ہے کہ فوج کا پرویز مشرف کے غداری کیس سے کوئی تعلق نہیں۔ اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو میں انھوں نے یہ کہہ کر اس پر مزید بات کرنے سے گریز کیا کہ یہ معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ فوج کے کسی سابق سربراہ پر غداری کا مقدمہ قائم کرکے عدالتی کارروائی شروع کی گئی۔ پرویز مشرف گزشتہ ماہ متعدد بار مقامی و بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کو دیے گئے انٹرویوز میں یہ کہہ چکے ہیں کہ پاکستانی فوج ان پر قائم غداری کے مقدمے پر ناخوش ہے اور انھیں پوری فوج کی حمایت حاصل ہے۔