رسائی کے لنکس

خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کی طبی رپورٹ طلب کر لی


Para pria membawa poster dalam sebuah protes menuntut perwakilan politik perempuan dan keterlibatan perempuan di parlemen yang lebih kuat di depan gedung parlemen pada Hari Perempuan Internasional di Tbilisi, 8 Maret 2015.
Para pria membawa poster dalam sebuah protes menuntut perwakilan politik perempuan dan keterlibatan perempuan di parlemen yang lebih kuat di depan gedung parlemen pada Hari Perempuan Internasional di Tbilisi, 8 Maret 2015.

سماعت کے دوران عدالت کی طرف سے پرویز مشرف کی حاضری سے متعلق سوال پر وکیل صفائی شریف الدین پیزادہ کا کہنا تھا کہ ’’یہ سب کو علم ہے کہ وہ اسپتال میں ہیں‘‘۔

اعلٰی عدلیہ کے تین ججوں پر مشتمل خصوصی عدالت نے سابق فوجی صدر کی گرفتاری کے احکامات جاری کرنے کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے افواج پاکستان کے ادارہ برائے امراض قلب کو منگل تک پرویز مشرف کی صحت سے متعلق طبی رپورٹ جمع کرانے کو کہا ہے۔

پیر کو سماعت کے آغاز پر پرویز مشرف کی عدالت میں پیشی سے متعلق دریافت کرنے پر وکلاء صفائی نے کہا کہ فوج کے سابق سربراہ علیل ہیں اور عدالت میں پیش نہیں ہو سکتے تاہم وہ اس بارے میں کوئی شواہد پیش نا کر سکے۔

وکیل صفائی شریف الدین پیزادہ کا کہنا تھا کہ ’’یہ سب کو علم ہے کہ وہ (سابق صدر) اسپتال میں ہیں‘‘۔

پرویز مشرف کو جمعرات کو دل کی اچانک تکلیف کے باعث اسلام آباد سے ملحقہ راولپنڈی شہر میں افواج پاکستان کے ادارے برائے امراض قلب منتقل کر دیا گیا تھا جہاں وہ اب بھی زیر علاج ہیں۔

سابق صدر کے وکلاء عدالت کو بتا چکے ہیں کہ پرویز مشرف عدالت میں پیش ہونے کے لیے آ رہے تھے کہ اُنھیں دل کی تکلیف ہوئی۔

سابق صدر کی بیماری کے بارے میں اب تک اسپتال کی طرف سے کوئی باقاعدہ بیان سامنے نہیں آیا تاہم ایک وکیل صفائی الیاس صدیقی وائس آف امریکہ کو بتا چکے ہیں کہ ان کی پرویز مشرف سے اسپتال میں ملاقات ہوئی جن کی صحت ’’کمزور‘‘ دکھائی دے رہی تھی اور وہ عدالت میں پیش نہیں ہو سکیں گے۔

استغاثہ کی جانب پیر کی سماعت میں ایک بار پھر پرویز مشرف کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کرنے کی استدعا کی گئی جسے عدالت نے منظور نہیں کیا۔

وکلاء صفائی کا کہنا تھا کہ سابق فوجی صدر کے خلاف دائر درخواست کسی بھی صورت فوجداری مقدمے کے تحت نہیں آتی اس لیے ان کے موکل کے خلاف گرفتاری کے وارنٹ جاری نہیں ہو سکتے۔

استغاثہ کے وکیل اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ قانون کے مطابق عدالت سابق صدر کے خلاف غداری کے الزامات کی کارروائی میں تاخیر کی مجاز نہیں اور اس لیے اسے جلد سے جلد نمٹایا جائے۔

’’اس مقدمے کو صرف ایک ملزم کی حاضری کے انتظار میں التواء میں نہیں رکھ سکتے۔ مقدمے کے میرٹس کورٹ میں دیے گئے ہیں۔ ہمارا مقدمہ صرف پانچ یا چھ دن سے طویل نہیں ہے۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ دفاع کے وکلاء کی طرف سے اس عدالتی کارروائی اور ججوں پر اعتراضات سے متعلق درخواستیں اسلام ہائی کورٹ میں دائر کی گئی ہیں اس لیے خصوصی عدالت کو اس پر غور کرنے کی ضرورت نہیں۔

وکلاء صفائی کے مطابق فوج کے سابق سربراہ کے کے خلاف کارروائی کا حق صرف فوجی عدالت کو ہے اور پرویز مشرف کے بقول حکومت کی قائم کردہ خصوصی عدالت کے جج ان کے خلاف تعصب رکھتے ہیں۔

پرویز مشرف پر الزام ہے کہ انھوں نے 2007ء میں آئین معطل کرتے ہوئے ملک میں ایمرجنسی نافذ کی اور اعلیٰ عدلیہ کے درجنوں ججوں کی نظر بندی کے احکامات جاری کیے۔

اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ یہ مقدمہ کسی ادارے کی بجائے ’’فرد واحد‘‘ کے خلاف ہے لیکن ان کے بقول پرویز مشرف پاکستان فوج کو اس کا حصہ بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔

پرویز مشرف یہ کہہ چکے ہیں کہ ان کے خلاف غداری کی کارروائی پر پاکستانی فوج نالاں ہے اور انہیں اس مقدمے پر آرمی کی حمایت حاصل ہے۔

دوسری جانب حزب اختلاف کی جماعتوں کی طرف سے بھی پرویز مشرف کے خلاف اس عدالتی کارروائی پر تحفظات زیادہ واضح انداز میں سامنے آ رہے ہیں۔

قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کہتے ہیں کہ صرف پرویز مشرف کے خلاف عدالتی کارروائی کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم نہیں کیا جائے گا۔

’’اگر فرد واحد کے خلاف کارروائی ہوئی تو سمجھا جائے گا کہ (حکومت) کی مشرف سے ڈیل ہو گئی اور آپ اسے ملک سے باہر بھیج دیں گے۔ 12 اکتوبر میں تو چیف جسٹس افتخار چوہدری اور دیگر جج بھی ہیں جنھوں نے مشرف کو آئین میں ترمیم کی اجازت دی۔ آپ ان کو بھی تو لیکر آئیں نا۔‘‘

تاہم حکومت کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ یہ عدالتی کارروائی آئین کے تحت ہو رہی ہے اور اس کی بنیاد ہر گز ذاتی عناد یا سیاسی رنجش نہیں۔

ادھر اسلام آباد ہائی کورٹ نے پرویز مشرف کو ملک سے باہر جانے سے روکنے کی ایک درخواست مسترد کر دی جو کہ لال مسجد فوجی آپریشن کے متاثرین کی جانب سے دائر کی گئی تھی۔

سابق فوجی صدر کے دور میں دارالحکومت کے وسط میں قائم لال مسجد میں مشتبہ شدت پسندوں کی موجودگی اور اُن کی جانب سے سکیورٹی فورسز پر فائرنگ بعد کارروائی کی گئی۔

اس آپریشن میں مسجد کے نائب خطیب سمیت 100 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔
XS
SM
MD
LG