اسلام آباد —
پاکستان کے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف غداری کے مقدمے کی سماعت اسلام آباد میں قائم ایک خصوصی عدالت میں بدھ کو شروع ہوئی لیکن سکیورٹی خدشات کے باعث وہ ایک بار پھر عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔
اعلٰی عدلیہ کے تین ججوں پر مشتمل خصوصی عدالت کے سامنے پیش ہوتے ہی دفاع کے وکلاء نے نکتہ اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ حکومت کی قائم کردہ بینچ یہ مقدمہ سننے کی مجاز نہیں۔
سابق صدر کے وکیل انور منصور کا کہنا تھا کہ ججوں کی تقرری کے لیے آئین میں موجود طریقہ کار کو نظر انداز کرتے ہوئے وزیراعظم نے حال ہی میں سبکدوش ہونے والے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے مشاورت کی جبکہ کابینہ سے رائے نہیں لی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ بینچ میں شامل تینوں ججوں کا پرویز مشرف سے متعلق ’’تعصب‘‘ پایا جاتا ہے اس لیے ان کے موکل کو شفاف عدالتی کارروائی نا ہونے کا خدشہ ہے۔
سماعت کے بعد وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے وکیل دفاع احمد رضا قصوری کہنا تھا کہ اس کارروائی کے پیچھے ’’سیاسی و ذاتی‘‘ مقاصد حاصل کرنا ہیں
’’کون ہے آج وزیراعظم؟ نواز شریف جو 1999ء کا زخم خردہ ہے۔ اس نے کیوں مقدمہ کیا ہے؟ کیونکہ وہ بدلہ لینا چاہتا ہے۔ یہ ایک سیاسی مقدمہ ہے۔ تو جہاں اس پر قانونی نکات پر بات ہو گی وہیں سیاسی نقطہ نظر بھی آئے گا۔ ہم عوام کی عدالت میں پیش ہوئے ہیں یہ تو ایک علامتی عدالت ہے۔‘‘
پرویز مشرف حال ہی میں یہ دعویٰ بھی کر چکے ہیں کہ 2007ء میں آئین توڑ کر ملک ایمریجنسی نافذ کرنے پر ان کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے پر پاکستانی فوج نالاں ہے اور انھیں اس معاملے پر فوج کی حمایت حاصل ہے۔
منگل کو ان کی طرف سے خصوصی عدالت کی تشکیل اور ججوں پر اعتراض سے متعلق ایک درخواست اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی دائر کی گئی تھی۔
سابق فوجی سربراہ ان کے وکلاء کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف کی جان کو خطرہ ہے اور وہ نہیں سمجھتے کہ انہیں ’’فول پروف‘‘ سیکورٹی فراہم کی گئی ہے۔ تاہم وکلاء کے بقول حکومت اور عدالت کی طرف سے پرویز مشرف کو تحفظ کی فراہمی کی یقین دہانی پر سابق صدر عدالت میں پیش ہو سکتے ہیں۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ پرویز مشرف پر فرد جرم ان کی عدالت میں حاضری کے بغیر ممکن نہیں۔ سپریم کورٹ کے سینئیر وکیل احسن الدین شیخ کہتے ہیں۔
’’جب کوئی ملزم پیش ہوتا ہے تو اسے اس کے خلاف الزامات سنائے جاتے ہیں اور پھر پوچھا جاتا ہے کہ وہ اپنا جرم تسلیم کرتا ہے یا دفاع کرنا چاہتا ہے۔ یہاں تو وہ موجود ہی نہیں اور سب سے بڑی بات حکومت کا کام ہے اسے تحفظ فراہم کرنا۔‘‘
حالیہ دنوں میں پولیس کو متعدد بار پرویز مشرف کی رہائش گاہ کے قریب سے دھماکا خیز مواد ملے ہیں۔
سماعت کے دوران دفاع کے وکلاء کا کہنا تھا کہ یہ ایک حساس مقدمہ ہے اور اس سے متعلق نا صرف وکلاء بلکہ ججوں کے لیے بھی سلامتی کے خدشات ہیں۔
استغاثہ کے وکیل نصرین الدین نیئر کا کہنا تھا کہ عدالت پرویز مشرف کی گرفتاری کے احکامات بھی جاری کر سکتی ہے۔
’’اگر قانونی نکتہ پوچھیں تو عدالت سخت اقدامات لے سکتی ہے۔ عدالت قانون سے واقف ہے۔ یہ عدالت فیصلہ کرے گی کہ انہیں عدالت میں کیسے لانا ہے۔‘‘
عدالت نے سماعت ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ سابق صدر کے بینچ کے سامنے پیش نا ہونے سے متعلق فیصلہ جمعرات کی سماعت میں کیا جائے گا۔
حکومت میں شامل عہدیدار کا کہنا ہے کہ پرویز مشرف کے خلاف کارروائی آئین و قانون کے تحت شروع کی گئی اور اس کے پیچھے کوئی ذاتی یا سیاسی مقاصد نہیں۔
اعلٰی عدلیہ کے تین ججوں پر مشتمل خصوصی عدالت کے سامنے پیش ہوتے ہی دفاع کے وکلاء نے نکتہ اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ حکومت کی قائم کردہ بینچ یہ مقدمہ سننے کی مجاز نہیں۔
سابق صدر کے وکیل انور منصور کا کہنا تھا کہ ججوں کی تقرری کے لیے آئین میں موجود طریقہ کار کو نظر انداز کرتے ہوئے وزیراعظم نے حال ہی میں سبکدوش ہونے والے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے مشاورت کی جبکہ کابینہ سے رائے نہیں لی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ بینچ میں شامل تینوں ججوں کا پرویز مشرف سے متعلق ’’تعصب‘‘ پایا جاتا ہے اس لیے ان کے موکل کو شفاف عدالتی کارروائی نا ہونے کا خدشہ ہے۔
سماعت کے بعد وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے وکیل دفاع احمد رضا قصوری کہنا تھا کہ اس کارروائی کے پیچھے ’’سیاسی و ذاتی‘‘ مقاصد حاصل کرنا ہیں
’’کون ہے آج وزیراعظم؟ نواز شریف جو 1999ء کا زخم خردہ ہے۔ اس نے کیوں مقدمہ کیا ہے؟ کیونکہ وہ بدلہ لینا چاہتا ہے۔ یہ ایک سیاسی مقدمہ ہے۔ تو جہاں اس پر قانونی نکات پر بات ہو گی وہیں سیاسی نقطہ نظر بھی آئے گا۔ ہم عوام کی عدالت میں پیش ہوئے ہیں یہ تو ایک علامتی عدالت ہے۔‘‘
پرویز مشرف حال ہی میں یہ دعویٰ بھی کر چکے ہیں کہ 2007ء میں آئین توڑ کر ملک ایمریجنسی نافذ کرنے پر ان کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے پر پاکستانی فوج نالاں ہے اور انھیں اس معاملے پر فوج کی حمایت حاصل ہے۔
منگل کو ان کی طرف سے خصوصی عدالت کی تشکیل اور ججوں پر اعتراض سے متعلق ایک درخواست اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی دائر کی گئی تھی۔
سابق فوجی سربراہ ان کے وکلاء کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف کی جان کو خطرہ ہے اور وہ نہیں سمجھتے کہ انہیں ’’فول پروف‘‘ سیکورٹی فراہم کی گئی ہے۔ تاہم وکلاء کے بقول حکومت اور عدالت کی طرف سے پرویز مشرف کو تحفظ کی فراہمی کی یقین دہانی پر سابق صدر عدالت میں پیش ہو سکتے ہیں۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ پرویز مشرف پر فرد جرم ان کی عدالت میں حاضری کے بغیر ممکن نہیں۔ سپریم کورٹ کے سینئیر وکیل احسن الدین شیخ کہتے ہیں۔
’’جب کوئی ملزم پیش ہوتا ہے تو اسے اس کے خلاف الزامات سنائے جاتے ہیں اور پھر پوچھا جاتا ہے کہ وہ اپنا جرم تسلیم کرتا ہے یا دفاع کرنا چاہتا ہے۔ یہاں تو وہ موجود ہی نہیں اور سب سے بڑی بات حکومت کا کام ہے اسے تحفظ فراہم کرنا۔‘‘
حالیہ دنوں میں پولیس کو متعدد بار پرویز مشرف کی رہائش گاہ کے قریب سے دھماکا خیز مواد ملے ہیں۔
سماعت کے دوران دفاع کے وکلاء کا کہنا تھا کہ یہ ایک حساس مقدمہ ہے اور اس سے متعلق نا صرف وکلاء بلکہ ججوں کے لیے بھی سلامتی کے خدشات ہیں۔
استغاثہ کے وکیل نصرین الدین نیئر کا کہنا تھا کہ عدالت پرویز مشرف کی گرفتاری کے احکامات بھی جاری کر سکتی ہے۔
’’اگر قانونی نکتہ پوچھیں تو عدالت سخت اقدامات لے سکتی ہے۔ عدالت قانون سے واقف ہے۔ یہ عدالت فیصلہ کرے گی کہ انہیں عدالت میں کیسے لانا ہے۔‘‘
عدالت نے سماعت ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ سابق صدر کے بینچ کے سامنے پیش نا ہونے سے متعلق فیصلہ جمعرات کی سماعت میں کیا جائے گا۔
حکومت میں شامل عہدیدار کا کہنا ہے کہ پرویز مشرف کے خلاف کارروائی آئین و قانون کے تحت شروع کی گئی اور اس کے پیچھے کوئی ذاتی یا سیاسی مقاصد نہیں۔