رسائی کے لنکس

مشتاق رئیسانی کی درخواست منظور، نیب تنقید کی زد میں


فائل فوٹو
فائل فوٹو

’پلی بارگین‘ کے تحت رقم واپس کرنے والا کوئی بھی ملزم نا تو کسی بینک سے قرضہ لے سکے گا اور نا ہی 10 سال تک کسی سرکاری عہدے پر فائز ہو سکتا ہے۔

پاکستان کے قومی احتساب بیورو یعنی ’نیب‘ نے بلوچستان کے سابق سیکرٹری خزانہ مشتاق احمد ریئسانی کی ’پلی بارگین‘ کی درخواست منظور کی ہے، جس پر ملک ایک بار پھر اس سرکاری ادارے کی صلاحیت پر سوال اُٹھائے جا رہے ہیں۔

نیب کی طرف سے مشتاق رئیسانی کی درخواست منظور کرنے کا مطلب یہ ہے کہ بدعنوانی کے ایک سنگین معاملے میں دو ارب روپے قومی خزانے میں جمع کرانے پر اُن کی رہائی کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔

’پلی بارگین‘ ہے کیا؟

نیب آرڈیننس کے تحت زیر حراست کوئی بھی ملزم، غیر قانونی طور پر حاصل کی گئی رقم رضا کارانہ طور پر واپس کرنے سے متعلق ایک درخواست قومی احتساب بیورو کو دے سکتا ہے، جس کو ادارہ کا سربراہ منظور کر سکتا ہے۔

قومی احتساب بیورو یعنی نیب کے ڈائریکٹر جنرل آپریشنز ظاہر شاہ نے جمعرات کو ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا کہ نیب کے چیئرمین قانون کے مطابق ’پلی بارگین‘ کی درخواست منظور کر سکتے ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ بدعنوانی کے مقدمے میں کوئی بھی ملزم اپنے خلاف چلائے جانے والے مقدمات کے دوران ’پلی بارگین‘ کی درخواست کر سکتا ہے۔

’’چیئرمین نیب کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ پلی بارگین کی درخواست کو صرف قبول کر سکتے ہیں۔۔۔ لیکن اُس کی حتمی منظوری صرف وہی عدالت دے سکتی ہے جس کے سامنے مذکورہ مقدمہ زیر سماعت ہوتا ہے۔‘‘

ظاہر شاہ نے کہا کہ ’پلی بارگین‘ کے تحت مشتاق رئیسانی نے نقد رقم کے علاوہ جو اثاثے نیب کے حوالے کیے ہیں اُن کی مالیت لگ بھگ دو ارب روپے ہے۔

’’مجموعی اثاثہ جات جو اُنھوں نے ہمارے حوالے کیے ہیں وہ تقریباً 80 کروڑ کے بنتے ہیں اس کے علاوہ ہمارے پاس اُن کی 11 املاک کی قمیت کا اندازہ آ چکا ہے جن کی مالیت سوا ارب روپے بنتی ہے۔‘‘

نیب کے ڈائریکٹر جنرل آپریشنز کا کہنا تھا کہ اُن کا ادارہ ’پلی بارگین‘ کے تحت ملنے والی رقم کو اپنے پاس نہیں رکھ سکتا ہے۔

’پلی بارگین‘ کے تحت رقم واپس کرنے والا کوئی بھی ملزم نا تو کسی بینک سے قرضہ لے سکے گا اور نا ہی 10 سال تک کسی سرکاری عہدے پر فائز ہو سکتا ہے۔

مشتاق رئیسانی کی طرف سے دو ارب روپے کی ادائیگی سے متعلق درخواست کو قبول کرنے پر ’نیب‘ کو تنقید کا سامنا ہے۔

ملک میں حزب مخالف کی ایک بڑی جماعت تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے جمعرات کو سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ’ٹوئیٹر‘ پر ایک پیغام میں کہا کہ چالیس ارب روپے کی بدعنوانی کے عوض دو ارب روپے وصول کر کے کسی کو چھوڑنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ مبینہ طور پر نیب ’’بدعنوانی کو بڑھا رہا ہے۔‘‘

مشتاق رئیسانی پر 40 ارب روپے کی بدعنوانی کا الزام ہے لیکن اس بارے میں ’نیب‘ کی طرف سے کچھ نہیں کہا گیا ہے۔

اُدھر بدعنوانی کے خلاف کام کرنے والے ادارے ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل پاکستان کے مشیر عادل گیلانی نے بھی وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ بدعنوانی کے ملزم کو اس طرح چھوٹ دینے سے ملک میں انسداد بدعنوانی کی کوششوں کو دھچکا لگے گا۔

’’ابھی تو وہ دو ارب 10 کروڑ دینے کو تیار ہے۔۔۔ مگر قانون میں سب سے بڑا سقم یہ ہے کہ یہ شخص اگر پلی بارگین کر کے چلا جائے گا تو 10 سال وہ کسی سرکاری منصب پر فائز نہیں ہو سکتا لیکن اُس کے بعد وہ پارلیمنٹ کا ممبر بھی بن سکتا ہے۔‘‘

عادل گیلانی کا کہنا ہے کہ بدعنوانی پاکستان کو درپیش بڑے مسائل میں سے ایک ہے۔

واضح رہے کہ رواں سال مئی میں قومی احتساب بیورو "نیب" کے حکام نے مشتاق رئیسانی کو کوئٹہ میں ان کے دفتر سے گرفتار کیا تھا، جس کے بعد ان کے گھر پر چھاپا مار کر 70 کروڑ سے زائد ملکی و غیر ملکی کرنسی اور زیورات برآمد کیے گئے تھے۔

جب کہ بعد ازاں کراچی اور کئی دیگر شہروں میں مشتاق رئیسانی کی بیش قمیت جائیدادوں کا انکشاف بھی ہوا۔

ایک سرکاری عہدیدار کے گھر سے اتنی بڑی تعداد میں نقد رقم ملنے پر ملک کے سرکاری اداروں میں بدعنوانی سے متعلق سامنے آنے والے حقائق کو تقویت ملی۔

اور اب جب کہ مشتاق رئیسانی کو نیب کی طرف سے ’پلی بارگین‘ کے تحت چھوڑنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تو ملک میں ایک بار پھر یہ بحث ہو رہی ہے کہ سرکاری عہدے کا استعمال کرتے ہوئے بدعنوانی کا ارتکاب کرنے والوں کی اس فیصلے سے حوصلہ افزائی ہو گی کہ وہ بھی مبینہ طور پر لوٹی گئی رقم کا کچھ حصہ دے کر اپنی جان چھڑا سکتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG