رسائی کے لنکس

بھارت: مبینہ کرپشن کی رپورٹنگ پر قتل ہونے والے صحافی مکیش چندراکر کون تھے؟


  • میڈیا رپورٹس کے مطابق ریاست چھتیس گڑھ کے ایک 33 سالہ صحافی مکیش چندراکر کو سڑک کی تعمیر کے منصوبے میں مبینہ طور پر کروڑوں روپے کی مالی بدعنوانی کو بے نقاب کرنے پر قتل کر دیا گیا۔
  • پولیس نے معاملے کے اصل ملزم سریش چندراکر کو اتوار کی رات حیدرآباد سے گرفتار کر لیا۔
  • 'پریس کلب آف انڈیا' کے صدر گوتم لہری نے کہا کہ چھتیس گڑھ کے بستر ڈویژن میں صحافیوں کے قتل کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔
  • ’مہار سماج‘ کے سرپرست آر ڈی جھاڈی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم صحافیوں کے لیے محفوظ ماحول چاہتے ہیں تاکہ وہ آزادانہ اور بے خوف و خطر اپنا کام کر سکیں۔

نئی دہلی -- بھارت کی صحافتی تنظیموں نے ریاست چھتیس گڑھ کے ایک صحافی کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے قصورواروں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق ریاست چھتیس گڑھ کے ایک 33 سالہ صحافی مکیش چندراکر کو سڑک کی تعمیر کے منصوبے میں مبینہ طور پر کروڑوں روپے کی مالی بدعنوانی کو بے نقاب کرنے پر قتل کر دیا گیا۔ ان کی لاش ریاست کے بیجا پور شہر میں تین جنوری کو ایک سیپٹک ٹینک میں پائی گئی۔ اس واقعے سے پورے ملک میں سنسنی پھیل گئی ہے۔

پولیس نے معاملے کے اصل ملزم سریش چندراکر کو اتوار کی رات حیدرآباد سے گرفتار کر لیا۔ بتایا جاتا ہے کہ وہ مقتول صحافی کا دور کا رشتے دار ہے اور بدعنوانی کے بے نقاب ہونے کے بعد ریاستی حکومت کی جانب سے تحقیقات شروع کیے جانے سے پریشان تھا۔ اس معاملے میں تین افراد کو پہلے ہی گرفتار کیا جا چکا تھا۔

'ایڈیٹرز گلڈ' نے اس معاملے کو انتہائی پریشان کن قرار دیا ہے۔ اس نے ایک بیان میں کہا کہ صحافیوں کا تحفظ بالخصوص چھوٹے قصبوں اور دور دراز کے علاقوں میں کام کرنے والے صحافیوں کا تحفظ بہت اہم ہے۔ اس نے ریاستی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات میں کوئی کسر نہ چھوڑے اور قصورواروں کو جلد از جلد انصاف کے کٹہرے تک لائے۔

بھارت میں صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے 'پریس کلب آف انڈیا' نے اس قتل کی شدید مذمت کی اور ایک مقررہ مدت کے اندر کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ 'پریس کلب آف انڈیا' کے صدر گوتم لہری نے کہا کہ چھتیس گڑھ کے بستر ڈویژن میں صحافیوں کے قتل کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ہم اس واقعے کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں اور حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ قصورواروں کے خلاف جلد از جلد اور سخت کارروائی کرے۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ صحافیوں کے تحفظ کے تعلق سے حکومت کا رویہ ناقابلِ قبول ہے۔ اسے صحافیوں کے تحفظ کے سلسلے میں قانون سازی کے دیرینہ مطالبے پر کارروائی کرنی چاہیے۔

اُنہوں نے بتایا کہ پریس کلب صحافیوں کے تحفظ کے سلسلے میں پہلے بھی آواز اٹھاتا رہا ہے اور مرکزی حکومت اور ریاستی حکومتوں سے بھی ان کے تحفظ کا مطالبہ کرتا رہا ہے۔ پریس کلب کی جانب سے چھتیس گڑھ کے صحافی کے قتل پر کلب کے احاطے میں ایک تعزیتی پروگرام کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔

چھتیس گڑھ کی ایک مقامی برادری ’مہار‘ کی جانب سے اس قتل کے خلاف بطور احتجاج بیجاپور میں اتوار کی شب میں کینڈل مارچ نکالا گیا اور قصورواروں کی سزائے موت کا مطالبہ کیا گیا۔ واضح رہے کہ مقتول صحافی کا تعلق بیجاپور سے اور مہار برادری سے تھا۔

’مہار سماج‘ کے سرپرست آر ڈی جھاڈی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم صحافیوں کے لیے محفوظ ماحول چاہتے ہیں تاکہ وہ آزادانہ اور بے خوف و خطر اپنا کام کر سکیں۔

یاد رہے کہ ریاستی حکومت نے اس معاملے کی تحقیقات کے لیے ایک خصوصی تفتیشی ٹیم (ایس آئی ٹی) تشکیل کی ہے۔

مکیش چندراکر یکم جنوری سے لاپتا تھے۔ انہیں آخری بار گرفتار ٹھیکیدار سریش چندراکر کے بھائی رتیش چندرا کر کی بلائی گئی ایک میٹنگ میں دیکھا گیا تھا۔ مکیش کی لاش جس سیپٹک ٹینک میں پائی گئی وہ جگہ سریش چندراکر کی ہے۔

پولیس نے ان کے دو بھائیوں رتیش اور دنیش کو پہلے ہی گرفتار کیا تھا۔ جب کہ سریش حیدر آباد میں اپنے ایک ڈرائیور کے گھر میں روپوش تھے جہاں سے انھیں گرفتار کیا گیا۔

مکیش کے بھائی یوکیش چندراکر نے ان کے لاپتا ہونے کی رپورٹ پولیس میں درج کرائی تھی۔ پولیس کے مطابق رپورٹ درج کیے جانے کے بعد جانچ شروع کی گئی۔ 200 سی سی ٹی وی فوٹیج اور 300 موبائل نمبر ٹریک کرنے کے بعد انھیں گرفتار کیا گیا۔

نشریاتی ادارے ’انڈیا ٹوڈے‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق مکیش کے قتل کی تحقیقات ان کی تحقیقاتی رپورٹس کے تناظر میں کی جا رہی ہے۔ آئی پی ایس مینک گورجر کی سربراہی میں ایک 11 رکنی خصوصی ٹیم تشکیل کی گئی ہے۔

چھتیس گڑھ کے وزیرِ اعلیٰ وشنو دیو سائے نے قتل کو انتہائی تکلیف دہ قرار دیا اور اس کی مذمت کی۔ نائب وزیر اعلیٰ وجے شرما نے کہا کہ مالی بدعنوانی سے متعلق مکیش کی رپورٹ 25 دسمبر کو 'این ڈی ٹی وی' پر دکھائی گئی تھی۔ اُن کے بقول ممکن ہے کہ اسی وجہ سے ان کا قتل کیا گیا ہو۔ ان کے مطابق ایک ہفتے کے اندر فردِ جرم داخل کر دی جائے گی۔

واضح رہے کہ مقتول مکیش چندراکر نشریاتی ادارے 'این ڈی ٹی وی' کے لیے کام کر رہے تھے۔ اس کے علاوہ وہ ’بستر جنکشن‘ نام سے ایک مقبول یو ٹیوب چینل بھی چلا رہے تھے جس کے 1.9 لاکھ سبسکرائبرز ہیں۔

وہ نکسل سرگرمیوں سے متاثر علاقہ بستر سے بے خوف رپورٹنگ کے لیے مشہور تھے۔ انھوں نے 2021 میں ماؤ نوازوں کے ہاتھوں اغوا کیے جانے والے سی آر پی ایف کے ایک کمانڈو راکیشور سنگھ منہاس کو رہا کرانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

ان کے بھائی نے جو رپورٹ درج کرائی تھی اس میں ایک سڑک کی تعمیر میں مالی بدعنوانی کو بے نقاب کیا گیا تھا۔ ان کے مطابق اس رپورٹ کی اشاعت کے بعد ان کو ملزموں کی طرف سے دھمکیاں ملی تھیں۔

مکیش بستر علاقے سے نکسلیوں کے حملوں، انکاؤنٹرز اور دوسرے ایشوز کی عمومی رپورٹنگ کرتے رہے ہیں۔ وہ نکسل سرگرمیوں کے تعلق سے چھتیس گڑھ کی راجدھانی رائے پور اور ملک کے دیگر حصوں کے صحافیوں کی رپورٹنگ میں مدد کرتے رہے ہیں۔

نشریاتی ادارے 'انڈیا ٹوڈے' نے لاش کا پوسٹ مارٹم کرنے والے ڈاکٹرز کے حوالے سے بتایا ہے کہ ان کو اس بری طرح زدوکوب کیا گیا کہ لیور کے چار ٹکڑے، سر میں 15 فریکچر، پانچ ٹوٹی ہوئی پسلیاں، ٹوٹی ہوئی گردن اور کٹا پھٹا دل پایا گیا۔ ڈاکٹرز کے مطابق انھوں نے 12 سالہ کریئر میں ایسا کیس نہیں دیکھا۔

یاد رہے کہ مئی 2022 میں غیر قانونی کان کنی میں ملوث افراد کے سلسلے میں رپورٹنگ کرنے کی وجہ سے بہار میں ایک آزاد صحافی سبھاش کمار مہتو کے سر میں ان کے گھر کے سامنے چار نامعلوم افراد نے گولی مار دی تھی۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارت میں صحافیوں کو لاحق خطرات کے سلسلے میں اکثر و بیش تر آوازیں اٹھتی رہی ہیں۔ صحافیوں کی عالمی تنظیموں کا کہنا ہے کہ بھارت میں پریس کی آزادی محدود ہوتی جا رہی ہے۔

صحافیوں کی ایک تنظیم ’رپورٹرز ود آوٹ بارڈر‘ کی جانب سے 2024 میں جاری کی جانے والی ایک رپورٹ کے مطابق پریس کی آزادی کے سلسلے میں 180 ملکوں کی فہرست میں بھارت اور نیچے گر کر 159 پر آ گیا ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق 1990 کے بعد سے اب تک بھارت میں 60 سے زائد صحافیوں کا قتل ہوا ہے۔

حکومت کے ذمہ دار پریس کی آزادی کو لاحق کسی بھی خطرے سے انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ملک میں پریس کو مکمل آزادی حاصل ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

فورم

XS
SM
MD
LG