کراچی میں گزشتہ سال قتل ہونے والے نقیب اللہ محسود کی برسی کے سلسلے میں اتوار کے روز ٹانک میں بڑا جلسہ کیا گیا۔ لیکن دوسری جانب ایک سال گزر جانے کے باوجود بھی انسداد دہشت گردی عدالت میں کیس اب تک ابتدائی مراحل ہی میں ہے۔
پولیس کی اپنی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق نقیب اللہ محسود کو سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی قیادت میں پولیس پارٹی نے اغواء کے بعد جعلی پولیس مقابلے میں کالعدم تحریک طالبان سے تعلق جوڑتے ہوئے پانچ دیگر افراد سمیت قتل کر دیا گیا تھا۔
واقعے پر سوشل میڈیا پر بے حد تنقید کے بعد سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی از خود نوٹس لیا تھا جبکہ اس کا مقدمہ پولیس پارٹی کے خلاف انسداد دہشت گردی قوانین کے تحت درج کیا گیا۔
شروع میں مرکزی ملزم اور سندھ پولیس کے سابق ایس ایس پی راؤ انوار تین ماہ تک مفرور رہے تاہم مارچ میں راؤ انوار نے خود کو قانون کے حوالے کر دیا جس کے بعد راؤ انوار سمیت تمام ملزمان کو انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش کیا گیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ راؤ انوار کو حکومت سندھ نے سکیورٹی کو بنیاد بناتے ہوئے ان کے مکان کو ہی سب جیل قرار دے دیا تھا۔
انسداد دہشت گردی قوانین کے تحت چلنے والے اس مقدمے میں نقیب اللہ کے والد کے وکیل نے کئی بار ملزم کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک کو انصاف کے تقاضوں کے خلاف قرار دیا۔ اس دوران نقیب اللہ محسود کو عدالت میں پیشی کے وقت بکتر بند گاڑی میں لایا جاتا رہا اور انہیں عام ملزموں کے مقابلے میں کبھی بھی ہتھکڑی پہنا کر پیش نہیں کیا گیا۔
امتیازی رویے کے خلاف درخواستیں رد کرنے اور دیگر وجوہات پر نقیب اللہ محسود کے والد اور کیس کے مدعی کے وکیل نے عدالت پر عدم اعتماد کا اظہار کیا اور کیس دوسری عدالت منتقل کرنے کا مطالبہ کیا۔ سندھ ہائیکورٹ میں درخواست منظور ہونے کے بعد اب یہ کیس انسداد دہشت گردی کی دوسری عدالت کو منتقل ہو چکا ہے تاہم کیس میں اب تک کوئی ٹھوس پیش رفت نہیں ہوئی اور یہ اب بھی ابتدائی مراحل ہی میں ہے۔ کسی بھی ملزم پر اب تک فرد جرم عائد نہیں کی جاسکی۔
کیس میں مدعی کے وکیل صلاح الدین پنہور ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ اس کیس میں سست روی کی ذمہ داری سرکاری وکیل اور تفتیشی افسر کے عدم تعاون پر عائد ہوتی ہے۔
نقیب اللہ کا خاندان سندھ پولیس کے سابق ایس ایس پی راؤ انوار ہی کو اپنے بے گناہ بیٹے کا قاتل قرار دیتے رہے ہیں۔ نقیب اللہ کے والد محمد خان کے قریبی ساتھی اور رکن قومی اسمبلی سیف الرحمان محسود کا کہنا ہے کہ جس طرح ملزمان کی پشت پناہی کی جا رہی ہے اور انہیں سہولیات فراہم کی جاتی ہیں وہ آئین اور قانون کی دھجیاں اڑانے کے مترادف اور ہمارے لئے تشویش کا باعث ہے۔
کیس میں اب بھی سات ملزمان مفرور اور پولیس کی پہنچ سے دور ہیں۔ چھ ملزمان کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست پر دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کیا جا چکا ہے۔ جبکہ پانچ ملزمان ضمانت پر ہیں جن میں کیس کے مرکزی ملزم سابق ایس ایس پی راؤ انوار بھی شامل ہیں۔ صرف چار ایسے ملزمان ہیں جو گرفتار اور جیل میں قید ہیں۔ کیس میں مدعی کے وکیل کی جانب سے جان کے خطرے کی بھی نشاندہی کی جا چکی ہے۔
تاہم نقیب اللہ کا خاندان اور وکیل عدالتی نظام پر مکمل بھروسہ رکھے ہوئے ہیں انہیں اُمید ہے کہ جلد یا بدیر انہیں انصاف ملے گا۔ مدعی کے وکیل صلاح الدین پنہور ایڈوکیٹ کے مطابق ٹرائل کیس دوسری عدالت میں شفٹ ہونے اور راؤ انوار کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں رکھنے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست مسترد ہونا ان کے مؤقف کی کامیابی ہے۔ انہیں اُمید ہے کہ ٹرائل کورٹ میں بھی جلد ان کے موکل کو انصاف ملے گا۔
پاکستانی قوانین کے مطابق انسداد دہشت گردی کی عدالت کو سات روز میں فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ لیکن تفتیشی نظام کی کمزوری، شواہد کی تلاش، پولیس کے غیر پیشہ ورانہ رویے، مقدمات کی بھرمار کے باعث یہ قانون صرف کتابوں تک ہی محدود ہے۔
اگرچہ چند سالوں میں انسداد دہشت گردی کی عدالتوں کی تعداد بڑھائی گئی ہے لیکن پولیس میں تفتیش کا نظام بہتر نہ ہونے کے باعث اب بھی سندھ کی انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں ڈھائی ہزار کے لگ بھگ کیسز زیر سماعت ہیں۔
مقدمات کے التوا کے باعث سائلین کو انصاف ملنے کی اُمید اور بھی مدہم ہو جاتی ہے۔