رسائی کے لنکس

قومی احتساب ترمیمی آرڈیننس جاری، نئی تقرری تک موجودہ چیئرمین کام جاری رکھ سکیں گے


فائل فوٹو
فائل فوٹو

ڈاکٹر عارف علوی نے قومی احتساب دوسرا ترمیمی آرڈیننس 2021 جاری کردیا ہے، جس کے مطابق پاکستانی صدر مملکت چیئرمین نیب کا تقرر وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کی مشاورت سے کریں گے۔ تاہم، اتفاق رائے نہ ہونے کی صورت میں، صدر مملکت چیئرمین نیب کا معاملہ پارلیمانی کمیٹی کو بھجوائیں گے۔

آرڈیننس میں کہا گہا ہے کہ نئے چیئرمین کے تقرر تک موجودہ چیئرمین نیب کام جاری رکھیں گے۔

نئے آرڈیننس کے تحت چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کو نئے چیئرمین نیب کی تعیناتی تک توسیع دے دی گئی ہے، جب کہ نئے چیئرمین نیب کے لیے پرانے چیئرمین بھی امیدوار ہو سکتے ہیں۔

آرڈیننس کے مطابق صدر مملکت جتنی چاہیں گے ملک میں احتساب عدالتیں قائم کریں گے۔ آرڈیننس کے تحت صدر مملکت متعلقہ چیف جسٹس ہائیکورٹ کی مشاورت سے احتساب عدالتوں کے ججز مقرر کریں گے اور احتساب عدالتوں کے ججز کا تقرر تین سال کیلئے ہوگا۔

آرڈیننس میں کہا گیا ہے کہ مشترکہ مفادات کونسل، این ای سی، این ایف سی، ایکنک، سی ڈی ڈبلیو پی، پی ڈی ڈبلیو پی کے فیصلے نیب کے دائرہ اختیار سے باہر ہوں گے۔

اس سے قبل وزیرقانون فروغ نسیم اور وزیراطلاعات فواد چوہدری نے چئیرمین نیب کے تقرر کے حوالے سے نیا آرڈیننس لانے کا اعلان کیا تھا جس کے مطابق چیئرمین نیب کی تعیناتی صدرمملکت کریں گے، اور اس حوالے سے قائد ایوان یعنی وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر سے مشاورت ہوگی، چیئرمین نیب کے نام پر اتفاق نہ ہوا تو پارلیمانی کمیٹی بنے گی، نئے چئیرمین نیب کی تقرری تک پرانے چیئرمین فرائض انجام دیتے رہیں گے جب کہ نئے آرڈیننس میں چیئرمین نیب کے خلاف شکایات سپریم جوڈیشل کونسل میں کی جاسکیں گی۔

وزیرقانون فروغ نسیم نے کہا کہ کاروباری افراد اور بیوروکریسی ملک کا اہم ستون ہیں، کاروباری برادری اور بیوروکریسی نیب قانون سے تنگ ہو رہی تھی، فیصلہ ہوا ہے کہ نیب قانون میں ترامیم ہوں اور ٹیکس کا معاملہ متعلقہ فورم یعنی ایف بی آر کو منتقل کردیا جائے گا، جبکہ بنکس کے معاملات بھی بنکنگ کورٹس کو منتقل کیے جائیں گے۔ اس کے علاوہ نیب اب نجی معاملات میں مداخلت نہیں کرسکے گا۔ نئے آرڈیننس میں ملک بھر میں 90 نیب عدالتوں کے قیام کی سفارش کی گئی ہے۔

وزیر قانون نے کہا کہ ڈسٹرکٹ جج یا ریٹائرڈ جج احتساب عدالت کا جج بن سکے گا، احتساب عدالتوں میں جج متعلقہ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے مشورے سے لگایا جائےگا، جبکہ موجودہ عدالتی نظام میں موجود ڈسٹرکٹ جج بھی احتساب عدالتوں میں تعینات کیے جاسکیں گے۔

چئیرمین نیب کا تقرر

وزیرقانون فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ چیئرمین نیب کی تقرری سے متعلق آرڈیننس میں بہت سی چیزیں ہیں۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ بدقسمتی سے اپوزیشن نے چیئرمین نیب کی تعیناتی کے حوالے سے آرڈیننس پر سیاست کی۔

فروغ نسیم نے بتایا کہ چیئرمین نیب کی تعیناتی صدرمملکت کریں گے، اس حوالے سے قائد ایوان اور اپوزیشن لیڈر سے مشاورت ہوگی، چیئرمین نیب کے نام پر اتفاق نہ ہوا تو پارلیمانی کمیٹی بنے گی۔

پارلیمانی کمیٹی میں حکومت اور اپوزیشن کے چھ چھ ارکان شامل ہوں گے، یہ پارلیمانی کمیٹی اسپیکر قومی اسمبلی اسدقیصر قائم کریں گے، نئے چیئرمین کی تعیناتی کیلئے مختلف ناموں پر بھی غور ہو گا، اور نئے چیئرمین نیب کی تقرری تک پرانے چیئرمین فرائض انجام دیتے رہیں گے۔

انہوں نے کہا کہ آرڈیننس میں صرف چیئرمین تقرری کا معاملہ شامل نہیں، ایف بی آر کے پاس بھی اختیارات ہیں، آرڈیننس کے ذریعے ٹیکس کا معاملہ ایف بی آر کے پاس چلا جائے گا، چیئرمین نیب کے خلاف شکایات سپریم جوڈیشل کونسل میں کی جا سکیں گی۔ انہوں نے کہا کہ نیب ملزمان کی ضمانت کے حوالے سے شکایات پر اب ضمانت کے حوالے سے اختیارات احتساب عدالتوں کو دیئے جا رہے ہیں۔

وزیراطلاعات فواد چوہدری کا کنہا تھا کہ چیئرمین نیب کی تقرری کا آرڈیننس لار ہے ہیں۔ لیکن اس کا ایکٹ بھی آئے گا۔ اپوزیشن کو دعوت دیتے ہیں کہ اگر آرڈیننس میں مزید کچھ شامل کرنا چاہتے ہیں تو بتائیں۔ عمران خان اپوزیشن لیڈر شہبازشریف سے مشاورت نہیں کریں گے، اپوزیشن سے مشاورت ہوگی شہبازشریف سےنہیں ہوگی، اپوزیشن لیڈر سے ہی مشاورت کرانی ہے تو شہبازشریف کو تبدیل کر دیا جائے۔

نیب کا دائرہ اختیار محدود

پریس کانفرنس میں فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ نیب کو اپنا دائرہ اختیار اتنا نہیں پھیلانا چاہیے کہ کسی کو پتہ ہی نہیں چلے کہ کیا ہو رہا ہے، نیب کو بڑی مچھلیوں پر نظر رکھنی ہے، ہمارا مقصد ہے کہ نیب مقدمات کو منطقی انجام تک پہنچائے، ہم نے عدالتوں کی تعداد بڑھا کر ان کا طریقہ کار بھی تبدیل کیا گیا ہے، پراسیکیوٹر جنرل نیب ریفرنس دائر کریں گے کیونکہ اس سے قبل پراسیکیوٹر جس نے کیس لڑنا ہوتا تھا اسے بتائے بغیر ریفرنس فائل ہونے سے بعد میں بہت سی قانونی موشگافیاں پیدا ہوتی تھیں، اب پراسیکیوٹر کی سفارش پر ریفرنس فائل ہونے سے اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ کیس میں ملزمان کو سزا بھی ہو۔ پراسیکیوٹر نیب کے لیے پرانے اور نئے تمام نام زیر غور آئیں گے۔

اس کے علاوہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق ضمانت کا اختیار احتساب عدالتوں کو دیا جارہا ہے۔

فروغ نسیم نے کہا کہ کاروباری افراد اور بیوروکریسی ملک کا اہم ستون ہیں، کاروباری برادری اور بیوروکریسی نیب قانون سے تنگ ہو رہی تھی، عام تاثر تھا کہ بیوروکریٹس اور کاروباری حضرات متاثر ہو رہے ہیں۔ لہذا نیب کا دائرہ اختیار محدود ہونے کے بعد اب نجی معاملات، بنک سے متعلق کیسز اور ٹیکس معاملات میں تفتیش نیب نہیں کرے گا۔ اس بارے میں ایف آئی اے، بنکنگ کورٹس اور سٹیٹ بنک جبکہ ٹیکس معاملات کو دیکھنے کے لیے ایف بی آر کو مزید اختیارات دیے جائیں گے۔

اپوزیشن کا ردعمل

اسلام آباد ہائیکورٹ میں چئیرمین نیب کو توسیع سے متعلق جب سوال کیا گیا تو مریم نواز نے کہا کہ اس توسیع کے پیچھے بدنیتی ہے۔

بقول ان کے، حکومت اور چئیرمین نیب میں یہ ڈیل ہوئی ہے کہ تم میرے دشمنوں کے خلاف کارروائی کرنا، میں تمہیں توسیع دوں گا۔

مریم نواز نے دعویٰ کیا کہ ''جسٹس (ر) جاوید اقبال کو توسیع دینا غیر قانونی ہے، آپ کسی گناہ میں ملوث ہیں جس کے تسلسل کے لیے توسیع چاہتے ہیں، یہ توسیع غیر آئینی اور غیر قانونی ہے۔ اگر ایسا کچھ ہوا تو کسی بھی عدالت میں اسے مسترد کردیا جائے گا''۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی شیری رحمان نے ایک بیان میں کہا کہ حکومت اصلاحات کے نام پر، بقول ان کے، بدنیتی پر مبنی آرڈیننس لا رہی ہے۔

ان کے الفاظ میں، اصلاحات مستقبل کے لئے ہوتے ہیں لیکن یہ آرڈیننس ایک شخص کو بچانے کے لئے لایا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ''چیئرمین نیب کی مدت ملازمت 8 اکتوبر کو ختم ہو رہی ہے اور مدت ملازمت ختم ہونے کے بعد موجودہ چیئرمین کیسے کام کر سکتے ہیں؟''

شیری رحمان کے بقول، حکومت کو مشاورت کرنی ہوتی تو آرڈیننس کی ضرورت نہ پڑتی،حکومت یہ مشکوک آرڈیننس پیش کر کے نیب چیئرمین کو مزید متنازعہ بنا رہی ہے۔

XS
SM
MD
LG